Advertisement
خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی

دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
ان کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی

میں نہ جاوں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
مجھ کو کوئے مصطفیﷺ کی چاکری اچھی لگی

یوں تو کہنے کو گزاری زندگی میں نے مگر
جو در آقا پہ گزاری وہ گھڑی اچھی لگی

والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار
حق تعالی کو ادا ان کی بڑی اچھی لگی

ناز کر تو اے حلیمہ سرور کونینﷺ کو
گر لگی اچھی تو تیری جھونپڑی اچھی لگی

ساقی کوثر کا جس کو مل گیا جام ولا
کب اسے پھر مئے کدہ اور مئے کشی اچھی لگی

بے خودی میں کھینچ کے آجاتے ہیں آقاﷺ کے غلام
محفل نعت نبی جس جا سجی اچھی لگی

رکھ دیئے سرکارﷺ کے قدموں پہ سلطانوں نے سر
سرور کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی

دور رہ کر آستان سرور کونین سے
زندگی اچھی لگی نہ بندگی اچھی لگی

تھا مری دیوانگی میں بھی شعور احترام
میرے آقا کو مری دیوانگی اچھی لگی

مہر و ماہ کی روشنی مانا کہ ہے اچھی مگر
سبز گنبد کی مجھے تو روشنی اچھی لگی

آج محفل میں نیازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقان مصطفیﷺ کو وہ بڑی اچھی لگی

Advertisement