میں بندۂ عاصی ہوں خطا کار ہوں مولا

0
میں بندۂ عاصی ہوں خطا کار ہوں مولا 1
میں بندۂ عاصی ہوں خطا کار ہوں مولا
لیکن تری رحمت کا طلبگار ہوں مولا
وابستہ ہے امید مری تیرے کرم سے
تیرا ہوں فقط تیرا پرستار ہوں مولا
اک سوت کی انٹی مرے سانسوں کا اثاثہ
اور یوسفِ ہستی کا خریدار ہوں مولا
باہر کے اجالے مجھے کیا راہ سجھائیں
اندر کے اندھیروں میں گرفتار ہوں مولا
تاریخ بھی میری نہیں پہچانتی مجھ کو
کیسا میں یہ جغرافیہ بردار ہوں مولا
جن سے میں گزر جاؤں وہ در کھول دے مجھ میں
خود اپنے ہی رستے کی میں دیوار ہوں مولا
یہ نقطۂ اسود بھی مرے دل سے مٹا دے
سینے میں چھپے چور سے بیزار ہوں مولا
پھر تو مرے ایمان کو توانائی عطا کر
برسوں نہیں صدیوں سے میں بیمار ہوں مولا
پستی سے ابھرنے کی اگر شرط ہے سولی
سولی پہ بھی چڑھنے کو میں تیار ہوں مولا
اتنا ہی ڈبو دے مجھے دریائے عمل میں
جتنا بھی میں اب تشنہ کردار ہوں مولا
اک تیرا اشارہ ہو اور آسان ہو مشکل
اک لہر اٹھے اور میں اس پار ہوں مولا