خود اعتمادی و خود انحصاری، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر ۳۵:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: خود اعتمادی و خود انحصاری کا مفہوم تحریر کریں۔

جواب: خود اعتمادی اور خود انحصاری کا لفظی معنی اپنے آپ پر اعتماد اور انحصار کرنا ہے۔اصطلاحی طور پر اپنی صلاحیتوں کو پہنچاننا، ان کا ادراک کرنا اور اپنی قوت و طاقت پر بھروسا کرنا خود انحصاری کہلاتا ہے۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری بہترین وصف کا نام ہے۔ جو بھی شخص بڑے کام انجام دینا چاہتا ہے، اس میں اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ خود اعتمادی انسان کا وہ وصف اور طرز عمل ہے جو انسان کے لیے عظیم مقاصد کا حصول ممکن بنا دیتا ہے۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری انسان کے اندیشوں، خوف اور شک کو دور کرکے انسان میں اعتماد اور امید پیدا کرتی ہیں اور انسان کی جدوجہد، کوشش اور کامیابی کے امکانات کو روشن کر دیتی ہیں جس سے کامیابی کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں۔

سوال۲: خود اعتمادی و خودانحصاری کے دومعاشرتی فوائد تحریر کریں۔

جواب: خود اعتمادی و خودانحصاری اگر تکبر و غرور جیسے منفی جذبات سے خالی اور مثبت فکر سے بھرپور ہو تو انسان ہر قدم پر کامیاب ہوتا ہے۔ لوگ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت کا حامل فرد بن جاتا ہے۔ ہمیں زندگی میں بعض اوقات مشکلات اور مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاروبار میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے مواقع پر خودانحصاری سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے مشکلات سے نکلنے کی کوشش کریں۔

سوال۳: خود انحصاری کے بارے میں ایک آیت کا ترجمہ لکھیں۔

جواب: اسلام انسان کو جن اخلاق اور اوصاف کے اپنانے کی تلقین کرتا ہے، ان میں عزم و ہمت، حوصلہ اور خود اعتمادی اور خود انحصاری سر فہرست ہیں۔ اسلام انسان کو کم ہمتی اور مشکلات سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور انسان کو عزم و ہمت سے کام لینے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا درس دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: جب آپ (کسی بات کا) عزم کر لیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔ (سورۃ آل عمران: 159)

سوال۴: خود اعتمادی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کیا نصحیت فرمائی؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی قرآن مجید میں جو صفات ذکر کی ہیں، ان میں ایک تو کل علی اللہ بھی ہے۔ اہل ایمان پر جب مشکلات آتی ہیں تو وہ کم ہمت نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے خوف کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ ہمت اور حوصلے سے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب تحریر کریں:

سوال۱: خود اعتمادی و خود انحصاری سے متعلق نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ایک مثال تحریر کریں۔

جواب: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ہمیں خود اعتمادی اور خودانحصاری کا درس دیا ہے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی حیات طیبہ خود اعتمادی اور خود انحصاری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے عزم و ہمت اور خود اعتمادی کو ختم نہ کر سکی اور آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو اپنے مقصد سے دور نہ کرسکی۔

آپ نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے تمام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ غزوہ بدر ہو یا غزوہ احد، خندق ہو یا حنین، تمام غزوات میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے خود اعتمادی اور خودانحصاری سے کام لیتے ہوئے عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو فتح و کامرانی عطا فرمائی۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہمیں خود اعتمادی و خود انحصاری سے بھر پور نظر آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی 53 سالہ مکی اور دس سالہ مدنی زندگی کا ہر لمحہ خود اعتمادی اور خود انحصاری کا مرقع نظر آتا ہے۔ عمومی تناظر میں جب عام انسانوں میں خود اعتمادی کے عنصر کا جائزہ لیا جائے تو یہ مقدس جذبہ بعض شخصیات میں تکبر جیسے منفی جذبات میں ملوث نظر آتا ہے۔

لیکن نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی خود اعتمادی میں عجز و انکسار کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ فتح مکہ کے موقعے پر عالم یہ تھا کہ آپ اپنی اونٹنی قصواپر سوار تھے اور آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا سرانور جھکاہوا تھا اور سرپرسیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے، مگر رعب و دبدبہ قائم تھا۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری جانب اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے چاروں طرف جوش میں بھرا لشکر تھا۔ لشکر کی شان و شوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضڑت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہارا بھتیجا تو بادشاد ہو گیا۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تیرا برا ہو اے ابوسفیان یہ بادشاہت نہیں، بلکہ نبوت ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ جلال کے باوجود آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سر اونٹنی کے کوہان سے لگ جاتا تھا۔

سوال۲: خود اعتماد و خود انحصاری کس طرح انسان کو ترقی یافتہ بناتی ہے؟

جواب:خود اعتمادی و خودانحصاری اگر تکبر و غرور جیسے منفی جذبات سے خالی اور مثبت فکر سے بھرپور ہو تو انسان ہر قدم پر کامیاب ہوتا ہے۔ لوگ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت کا حامل فرد بن جاتا ہے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو درس دیا کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی دوسروں کی طرف دیکھنے اور ان سے امید رکھنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ اللہ تعالیٰ ان مشکلات سے نکلنے کا راستہ دکھا دے گا۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نےا یک بھیک مانگنے والے شخص کو بلا کر اسے محنت اور زور بازو پر بھروسا کرنے کا سبق دیا، اس کا سامان فروخت کروا کر اسے محنت اور زور بازو سے کما کر کھانے کی ترغیب دی۔

ہمیں زندگی میں بعض اوقات مشکلات اور مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاروبار میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے مواقع پر خودانحصاری سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے مشکلات سے نکلنے کی کوشش کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے محنت اور جد جہد کو اپنا شعار بنائیں تاکہ ہم کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں۔