Imam Suyuti Biography | امام سیوطی

0
  • سبق نمبر ۳۳:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: امام سیوطی کی تصانیف کے نام تحریر کریں۔

جواب:آپ کی مشہور تصانیف تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور کے علاوہ قرآنیات پر الاتقان فی علوم القرآن علما میں کافی مقبول ہے اس کے علاوہ تاریخ اسلام پر تاریخ الخلفاء مشہور ہے۔

سوال۲: امام سیوطی کی پیدائش اور ابتدائی زندگی کے بارے نوٹ لکھیں۔

جواب: امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 2 اکتوبر 1445ء کو ہوئی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام عبد الرحمان، کنیت ابو الفضل، لقب جلال الدین اور عرف ابن کتب تھا۔ ایک مفسر، محدث، فقیہ اور مورخ تھے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش مصر کے قدیم قصبے اسیوط میں ۸۴۹ ہجری میں ہوئی۔ اسی نسبت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کو سیوطی کہا جاتا ہے۔

امام جلال الدین سیوطی نے 8 سال کی عمر میں شیخ کمال الدین ابن الھمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی خدمت میں رہ کر قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد شیخ شمس سیرامی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ اور شمس فرومانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی شاگردی میں رہے اور ان دونوں حضرات سے معدد کتب پڑھیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب تحریر کریں:

سوال۱: امام سیوطی کی علمی خدمات پر نوٹ لکھیں۔

جواب:آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اصل نام عبدالرحمٰن، کنیت ابوالفضل اور لقب جلال الدین تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ ایک شہرہ آفاق مفسر، محدث، فقیہ اور مورخ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی کتب کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ ”تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور“ کے علاوہ قرآنیات پر آپ کی کتاب ”الاتقان فی علوم القرآن“ علما میں کافی مقبول ہے۔تاریخ اسلام پر تاریخ الخلفاء امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی مشہور زمانہ تصنیف ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی پیدائش مصر کے قدیم قصبے اسیوط میں ۸۴۹ ہجری میں ہوئی۔ اسی نسبت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کو سیوطی کہا جاتا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی نے 8 سال کی عمر میں شیخ کمال الدین ابن الھمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی خدمت میں رہ کر قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد شیخ شمس سیرامی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ اور شمس فرومانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی شاگردی میں رہے اور ان دونوں حضرات سے معدد کتب پڑھیں۔

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے مجھے سات علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ نحو، معانی، بیان اور بدیع میں کمال عطا فرمایا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر میں نے آب زمزم پیا اور اس وقت یہ دعا مانگی کہ علم فقہ میں مجھے علامہ بلقینی اور حدیث میں علامہ ابن حجر عسقلانی کا رتبہ مل جائے، چناں چہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی تصانیف اور آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی علمی شان اس کی شاہد ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی یہ دعابارگاہ الہیٰ میں مقبول ہوئی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ: ”مجھے دو لاکھ احادیث یادہیں اور اگر مجھے اس سے زیادہ ملتیں تو ان کو بھی یاد کرتا۔“
آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مورخ بھی تھے۔ خلفائے ملت اسلامیہ پر آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی تصنیف تاریخ الخلفا ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کی خلافت سے لے کر بغداد کے آخری خلیفہ کے عہد خلافت تک سن وار لکھی گئی ہے۔

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ نے 19، جماد الاول 911 ہجری میں وفات پائی۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کو دنیاوی مال و دولت سے محبت نہ تھی۔ اکثر امراواغنیا آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیےتحفے تحائف لے کر حاضر ہوتے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کسی کا ہدیہ قبول نہ فرماتے تھے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ حلیم الطبع، فہم و فراست کے حامل اور علم و ادب سے محبت کرنے والی شخصیت تھے۔

علماو مفکرین رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت کے روشن پہلوؤں میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہمیں علم کے حصول و ترویج کے لیے کوشش کرنی چاہئے، تاکہ ہمارے معاشرے سے جہالت کا خاتمہ ہو سکے اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر امن کاگہوارہ بن سکے۔