Sheikh Fariduddin Attar Biography in Urdu | حضرت شیخ فرید الدین

0
  • سبق نمبر ۳۰:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت شیخ فرید الدین کی تصنیف پند نامہ کے موضوعات تحریر کریں؟

جواب: ”پندنامہ“ایک مختصرسی کتاب ہے لیکن اس میں آپ رحمہۃ اللہ علیہ نے زندگی گزارنے کاجوہنرپیش کیاہے اس پرعمل آوری کے ذریعہ زندگی بامقصد اور خوشگواربنائی جاسکتی ہے، پندنامہ میں جن موضوعات پر آپ نے لکھا ہے، ان میں ترتیب اس طرح ہے: حمد باری تعالیٰ و نعت رسول مقبول،ائمہ دین اور مجتہدین کی فضیلت، نفس کی بجائے احکامات الہیہ کی تابع فرمانی، خاموشی کے فوائد، ریاکاری سےا جتناب ، اخلاق حسنہ، اہل سعادت کے ساتھ بیٹھنے کے فوائد، سکون و عافیت کے اسباب، عجز و انکسار، ذکر کے فوائد اور غصے کے نقصانات اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت سمجھنا، نیز مذکورہ تعلیمات سے ان حضرات کی معاشرتی اور روحانی خزمات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب تحریر کریں:

سوال۱: حضرت شیخ فرید الدین کی علمی خدمات قلمبند کریں۔

جواب:حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ماہِ شعبان المعظم ۳۱۵ھجری میں ہوئی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ موضع کدکن کے رہنے والے تھے۔یہ گاؤں ایران کے شہر نیشاپورمیں واقع ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کااصل نام محمدبن ابی بکرابراہیم،کنیت ابوحامدیاابوطالب،لقب فریدالدین، تخلص عطارہے۔چونکہ آبائی پیشہ عطاری تھااسی لئے”عطار“اور”فرید“تخلص کے طورپرلکھتے تھے۔اسی وجہ سے اپنے قلمی نام”شیخ فریدالدین عطار“کے نام سے مشہورہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدابوبکرابراہیم چونکہ مشہور”عطار“تھے۔اسی لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی عمرمیں اسی عطاری کی دکان پرکام کیا۔ اسی دوران میں طب بھی پڑھی۔اوربحیثیت ایک طبیب خدمت خلق کرنے لگے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مطب سے سیکڑوں لوگ روزانہ دوا لے کر جاتے تھے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں مجدد الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا نام سرفہرست ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علوم و فنون خصوصا علم الکلام، فلسفہ، قرآن و حدیث، فقہ، طباور خصوصاً ادب میں مہارت حاصل کی، آپ رحمۃ اللہ علیہ فارسی کے مشہور شاعر تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً مصر، دمشق، مکہ، ترکستان اور ہندوستان کی سیر و سیاحت کی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ”توبہ“ اور”تارک الدنیا“ہونے کاایک واقعہ عام تذکرہ نگاروں نے درج کیاہے۔شیخ عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔”ایک روزشیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ اپنی دکان کے کاروبارمیں مصروف تھے۔دکان کامال سنبھال رہے تھے۔اورروپے پیسے کے الٹ پھیرمیں مشغول تھے۔کہ اچانک ایک ”درویش“ آیااس نے اللہ کے نام پرخیرات کاسوال کیا۔شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ اپنے کاروبارمیں مصروف تھے۔درویش کی صدا پر کوئی توجہ نہ دی۔بلکہ روپے پیسے کی ریل پیل میں لگے رہے۔صدالگانے والے ”درویش“نے کہادنیامیں اس قدرلگے ہوئے ہوتو آخر”آپ“ کوموت کب آئے گی؟حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے غصہ میں جواب دیاجس طرح تمہیں موت آئے گی،مجھے بھی اسی طرح موت آئے گی۔صدالگانے والے ”درویش“نے کہاکہ میری طرح مرناچاہتے ہو؟یہ کہہ کر”درویش“نے اپنالکڑی کاپیالہ سرہانے رکھازمین پرلیٹازبان سے کلمہ پڑھتے ہوئے”داعی اجل“کولبیک کہا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ یہ منظردیکھ کردنیاوی کاموں سے دست بردارہوگئے ساراشفاخانہ اوردوسرے احباب دنیاکولوگوں میں لٹادیااورعشق الٰہی کی دکان پرآبیٹھے۔

تذکرۃ الاولیاء، پندنامہ اور منطق الطیر آپ کی مشہور اصطلاحی کتب ہیں، جن کا موضوع حالات اولیاء نصیحت اور تصوف ہے، مشہور زمانہ صوفی بزرگ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے فیض حاصل کیا اور مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا منبع و ماخذ شیخ سے اکتساب فیض ہی ہے۔

آپ کی مایہ ناز تصنیف تذکرۃ الاولیا میں تقریباً 96 اولیا کرام کے حالات بیان ہوئے ہیں، پندنامہ میں جن موضوعات پر آپ نے لکھا ہے، ان میں ترتیب اس طرح ہے: حمد باری تعالیٰ و نعت رسول مقبول،ائمہ دین اور مجتہدین کی فضیلت، نفس کی بجائے احکامات الہیہ کی تابع فرمانی، خاموشی کے فوائد، ریاکاری سے اجتناب ، اخلاق حسنہ، اہل سعادت کے ساتھ بیٹھنے کے فوائد، سکون و عافیت کے اسباب، عجز و انکسار، ذکر کے فوائد اور غصے کے نقصانات اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت سمجھنا، نیز مذکورہ تعلیمات سے ان حضرات کی معاشرتی اور روحانی خزمات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آج کا معاشرہ اگر ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائے تو انفرادی اور اجتماعی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے اہل اللہ کی صحبت سے ہی ظاہری اور باطنی فوائد و ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں۔

1221ء میں تاتاریوں کے ہنگاموں کے دوران میں 114 سال کی عمر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک نیشاپور میں واقع ہے۔