Hazrat Abdullah Bin Umar History in Urdu | حضرت عبداللہ بن عمر

0
  • سبق نمبر ۲۴:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد اور والدہ کا نام لکھیں۔

جواب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والدہ کا نام ریطہ بنت منبہ تھا۔

سوال۲: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زہد و تقویٰ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثرت سے قران مجید کی تلاوت کرتے تھے۔

سوال۳: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اہل بیت اطہار سے محبت کا کوئی ایک واقعہ بیان کریں۔

جواب:حضرت رجا رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں ایک مرتبہ جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ بھی موجود تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبوی میں آتے ہوئے دیکھ کر کہا: ”کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں آگاہ نہ کروں جو آسمان والوں کے نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا:
”وہ یہ ہیں جو تمہارے سامنے تشریف لارہے ہیں یعنی حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔“

سوال۴: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علم حدیث کے حوالے سے خدمات واضح کریں۔

جواب:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رموی احادیث کی تعداد تقریباً سات سو (700) ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں علم و فضل کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبرانی زبان پر بھی عبور تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مجھ سے زیادہ احادیث یاد تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حلقہ درس میں شرکت کرنے کے لیے لوگ دور دراز کے ممالک سے سفر کرکے حاضر ہوتے اور حدیث کا علم حاصل کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل علم کی بہت عزت واحترام کرتے تھے۔

سوال۵: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کب اور کہاں وفات پائی؟

جواب: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 65 ہجری میں فسطاط میں وفات پائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم کے احکام کی روشنی میں زندگی گزاریں اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے نمایاں کردار ادا کریں، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حالات زندگی تحریر کریں۔

جواب:آپ رضی اللہ تعالیٰ کا نام عبداللہ، کنیت ابو محمد اور ابو عبدالرحمٰن تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والدہ کا نام ریطہ بنت منبہ تھا۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنےو الد سے پہلے اسلام قبول کیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا زیادہ وقت نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم کی بارگاہ میں گزارتے اور نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم کی زبان مبارک سے جو الفاظ ادا ہوتے تھے، وہ لکھ لیتے تھے، زہدوتقویٰ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھا۔ رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم کی مصاحبت سے جو وقت باقی بچتا، وہ یاد الہیٰ میں گزارتے تھے۔ دن بھر روزے کی حالت میں رہتے اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد نے بارگاہ نبوی خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راہبانہ زندگی کی شکایت کی تو نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو والد کی اطاعت کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:
”عبداللہ! روزے رکھو اور افطار کرو، نمازیں پڑھو اور آرام کرو، بیوی بچوں کا حق ادا کرو یہی میرا طریقہ ہے، جو میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ میری امت سے نہیں ہے۔“ (صحیح بخاری: 6134)

حضرت رجا رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں ایک مرتبہ جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ بھی موجود تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبوی میں آتے ہوئے دیکھ کر کہا: ”کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں آگاہ نہ کروں جو آسمان والوں کے نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا:
”وہ یہ ہیں جو تمہارے سامنے تشریف لارہے ہیں یعنی حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔“

سوال۲: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علمی خدمات تحریر کریں۔

جواب:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم کے ارشادات و ملفوظات کا ایک مجموعہ جمع کیا، جسے صحیفہ صادقہ کہا جاتا ہے، چناں چہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں سے دیکھ کر جواب دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجموعے کو نہایت عزیز رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ یہ وہ صحیفہ حق ہے جس کو میں نے تنہا رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی وآلہ واصحابی وسلم سے سن کر جمع کیا تھا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رموی احادیث کی تعداد تقریباً سات سو (700) ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں علم و فضل کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبرانی زبان پر بھی عبور تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مجھ سے زیادہ احادیث یاد تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حلقہ درس میں شرکت کرنے کے لیے لوگ دور دراز کے ممالک سے سفر کرکے حاضر ہوتے اور حدیث کا علم حاصل کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل علم کی بہت عزت واحترام کرتے تھے۔