Imam Shatibi Biography In Urdu | امام شاطبی کے حالاتِ زندگی

0
  • سبق نمبر ۳۲:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: امام شاطبی کی تصانیف کے نام تحریر کریں؟

جواب: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصانیف میں الاعتقاد فی اھل البدع والضلالات الموافقات فی اصول الشریعۃ (علم فقہ میں یہ ایک بہت ہی عمدہ کتاب ہے) اور کتاب المجالس وغیرہ شامل ہیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب تحریر کریں:

سوال۱: امام شاطبی کے حالاتِ زندگی تحریر کریں۔

جواب: ابو اسحاق ابراہیم ابن موسی الشاطبیؒ (720 – 790 ہجری / 1320 – 1388 عیسوی) مالکی مذہب کے پیروکار اندلس کے سنی اسلامی قانونی اسکالر تھے۔امام شاطبیؒ کا پورا نام “ابراہیم بن موسی بن محمد الشاطبی الغرناتی” تھا۔ آپ کا خاندان بنو لخم سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ کی کنیت “ابو اسحاق” تھی اور کنیت “اللخمی”، “الغرناطی”، “المالکی” اور “الشطبی” تھی۔ آپ کی تاریخ پیدائش اور مقام معلوم نہیں ہے۔ تاہم، آپ کی کنیتوں میں سے ایک، “شاطبی”، شہر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس قصبے کے مہاجرین کی نسل سے تھے۔

ابواسحاق، ابراہیم بن موسی الشاطبی مشہور محدث، فقیہ اور جامع العلوم تھے، جنہیں مجددین اسلام میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصانیف میں الاعتقاد فی اھل البدع والضلالات الموافقات فی اصول الشریعۃ (علم فقہ میں یہ ایک بہت ہی عمدہ کتاب ہے) اور کتاب المجالس وغیرہ شامل ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 538 ہجری کو اندلس کے قصبے شاطبہ میں پیدا ہوئے۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قرآن پاک کی قراءت کی تعلیم شاطبہ میں حاصل کی۔ قرآن پاک حفظ کیا اور حدیث وفقہ کا کچھ حصہ پڑھا اور شاطبہ کی مساجد میں منعقد ہونے والےعلم کے حلقوں میں شریک ہوئے-بچپن سے آپ(رحمۃ اللہ علیہ)کامیلان علمِ قرأت کی طرف تھا-تو یہ علم آپ(رحمۃ اللہ علیہ)نے ابو عبد اللہ محمد بن ابی العاص النفری سے حاصل کیا پھر مزید تعلیم کے لیے قریبی شہر ’’بلنسیہ‘‘ تشریف لے گئے۔

آپ(رحمۃ اللہ علیہ)نے ابو عبداللہ محمد بن علی النفری المقری اور امام ابوالحسن بن ہذیل سے قرأت میں پختگی حاصل کی اور امام ابو عبداللہ محمد بن سعادہ اور امام ابو عبداللہ بن عاشر،ابو عبداللہ محمدبن عبدالرحیم الخزرجی اور علیم بن عبدالعزیز (ان کے علاوہ کئی جید علماء)سے احادیث مبارکہ کی سماعت کی۔ بچپن سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا میلان علم قراء ت کی طرف تھا، یہ علم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ قبلہ اول کی زیادت کے بعد امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوبارہ مدرسہ فاضلیہ قاہری میں لوٹ آئے اور تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

امام شاطبی کی کتاب ’’ المعافقۃ فی اصول الشریعۃ‘‘ کے بعد تقریباً چار سو سال تک اس انداز کا کوئی وقیع کام اس موضوع پر نہیں ہوسکا۔ بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں ہندستان میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں شریعت کے جزوی احکام کی مصلحتیں بتائیں۔ یہ در اصل شریعت کے انفرادی احکام کے اسرا ر پر مباحث ہیں۔ بہرحال پوری شریعت کے عمومی مقاصد پر امام شاطبیؒ کا کارنامہ ابھی بھی سب سے نمایاں ہے

اس کے علاوہ آپ نحو کے استاد اور تعبیر کے علم میں بھی ماہر تھے۔ طلباء کو پڑھاتے وقت آپ نہایت خشوع وخضوع اور باوضو حالت میں بیٹھتے۔ آپ ہمیشہ فضول باتوں سے خود بھی پرہیز فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ سخت بیمار ہوجاتے تب بھی عیادت کرنے والوں کے جواب میں صرف ’العافیۃ‘(ٹھیک ہوں)فرما دیتے۔

امام شاطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 590 ہجری کو قاہرہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی نماز جنازہ مشہور عالم علامہ عراقی نے پڑھائی۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علوم شرعیہ کے ماہر عالم اور لغت کے امام تسلیم کیے جاتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ذہنی وسعت اور قوی ادراک رکھنے والے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قراءت و تفسیر میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صالح انسان، قول کے سچے اور بلند کردار کے حامل تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متقی، صابر، پاک باز، معزز شخصیت تھے۔