Hazrat Nizamuddin Auliyah Biography In Urdu | حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی

0

سبق نمبر ۳۱:

درج ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی کے کوئی سے تین ملفوظات تحریر کریں۔

جواب: آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی بھی ہر ممکن اصلاح کی کوشش کی، ”راحت القلوب“ آپ کی وہ تحریری کاوش ہے، جس میں آپ نے اپنے شیخ کامل بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ملفوظات اکٹھے کیے ہیں۔ ”افضل الفوائد“ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اپنے ملفوظات ہیں جو حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمع کیے ہیں اور ”فوائد الفؤاد“ آپ کے وہ ملفوظات ہیں، جن کو حضرت امیر حسن سجزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمع کیا ہے، یہ ملفوظات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں جن میں شریعت، عبادت ، احسان، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تفصیلی بیان ہے۔

سوال۲: حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی کی معاشرتی و روحانی خدمات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ملفوظات سے تزکیہ نفس اور روحانی آثار واضح ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ کچھ ملے تو جمع نہ کرو، نہ ملے تو فکر نہ کرو، امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرمائے گا۔کسی کی برائی نہ کرو، بلاضرورت قرض نہ لو، ظلم کے بدلے عطا کرو۔ ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے در پر آئیں گے، فکر و فاقہ رحمت الہیٰ ہے، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اس کی شب معراج ہے، اللہ کی راہ میں جتنا بھی خرچ کرو، وہ اسراف نہیں ہے اور جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے اسراف ہے، خواہ کتنا ہی کم ہو۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱:حضرت خواجہ نظام الدین کے حالات و واقعات تحریر کریں؟

جواب:برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اہل بیت کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کانام محمد نظام الدین، والد کا نام احمد بخاری، سلطان الاولیا اور محبوب الہیٰ مشہور القابات ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباؤاجداد بخارا سے ہجرت کرکے بدایون آباد ہوئے، وہیں بدایون میں 1237ء میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ پانچ برس کی عمر میں آپ کے والد کا وصال ہوا۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد بدایون کے قاضی تھے۔ پندرہ (۱۵) برس کی عمر میں دہلی تشریف لائے۔ قرآن و حدیث اور فقہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اساتذہ میں علامہ علاء الدین اصولی، شمس الدین خوارزمی اور کمال الدین محمد الزاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قابل ذکر نام ہیں۔ بیس سال کی عمر میں اجودھن موجودہ پاک پتن شریف میں بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اچھےپاروں کا درس حاصل کیا۔ شیخ نے کلاہ چاہر ترکی یعنی چار کونوں والی ٹوپی عطا کی جو بنیادی طور پر چار چیزوں کو ترک کرنے کا وعدہ تھا۔ دنیاوی مال و متاع کے حصول کے لیے لامحدود مشقت کو ترک کرنا، ایسا خوف آخرت جو خوف الہیٰ پر غالب ہو، اس کو ترک کرنا بہت زیادہ کھانا اور سونا ترک کرنا، نفس کی تابع فرمانی ترک کرنا۔

یہ چیزیں آج بھی سلسلہ چشتیہ کا امتیاز ہیں اور یہی اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔ آپ اپنے شیخ کے حکم پر دہلی تشریف لائے اور خلق خدا کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کا مزار مبارک دہلی میں ہی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مریدین کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کی ہدایت فرماتے۔ آپ کو علوم القرآن میں خاص دسترس حاصل تھی۔

آپ نے پوری زندگی طلب علم، عبادات، ریاضت و مجاہدہ اورلوگوں کی تربیت واصلاح میں گزار دی، آپ متقی، پرہیزگار صاحب سخاوت وایثار ، دل جوئی کرنے والے، عفوودرگزر سے کام لینے والے، حلیم و برباد اور حسن کول کے پیکر تھے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سخت مخالف تھا اور آپ کو برا بھلا کہتا رہتا تھا لیکن اس کے فوت ہو جانے پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے جنازہ میں تشریف لے گئے اور دعا کی کہ اے اللہ اس شخص نے جو کچھ بھی مجھے کہا، یہ میرے ساتھ کیا ہے، میں اس کو معاف کرتا ہوں۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ملفوظات سے تزکیہ نفس اور روحانی آثار واضح ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ کچھ ملے تو جمع نہ کرو، نہ ملے تو فکر نہ کرو، امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرمائے گا۔کسی کی برائی نہ کرو، بلاضرورت قرض نہ لو، ظلم کے بدلے عطا کرو۔ ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے در پر آئیں گے، فکر و فاقہ رحمت الہیٰ ہے، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اس کی شب معراج ہے، اللہ کی راہ میں جتنا بھی خرچ کرو، وہ اسراف نہیں ہے اور جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے اسراف ہے، خواہ کتنا ہی کم ہو۔

ہر صوفی بزرگ کی طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کی اور برصغیر کے معاشرے کوسدھارنے میں اہم کردار ادا کیا، ہزاروں کی تعداد میں فقرا و مساکین آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لنگر خانے سے کھانا کھاتے، آپ نے لوگوں کی راہ نمائی کے لیے اخلاص اور تقویٰ سے بھرپور شخصیات تیار کیں، ان میں شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت امیر حسن سجزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نام سر فہرست ہیں۔

ایک بار ایک طالب علم آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے اپنی ضرورت بیان کی تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس ایک بیل کے سوا کچھ نہ تھا، آپ نے وہی بیل طالب علم کے حوالے کردیا اور فرمایا جاؤ دینی علمی ضروریات پوری کر لینا۔ آپ نے خاندانِ خلجی اور خاندانِ تغلق تک کے مختلف سلاطین کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے ان کی بھی ہر ممکن اصلاح کی کوشش کی، ”راحت القلوب“ آپ کی وہ تحریری کاوش ہے، جس میں آپ نے اپنے شیخ کامل بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ملفوظات اکٹھے کیے ہیں۔ ”افضل الفوائد“ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اپنے ملفوظات ہیں جو حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمع کیے ہیں اور ”فوائد الفؤاد“ آپ کے وہ ملفوظات ہیں، جن کو حضرت امیر حسن سجزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمع کیا ہے۔

یہ ملفوظات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں جن میں شریعت، عبادت ، احسان، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تفصیلی بیان ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 1324ء میں وفات پائی۔
اس سبق میں ہمارے لیے یہ راہ نمائی ہے کہ اگر صوفیہ کرام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو معاشرے سے نفرتوں اور کدورتوں کا خاتمہ کرکے معاشرے کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔