Qasam Meaning and Types In Urdu | قسم کا معنی و مفہوم

0
  • سبق نمبر ۱۹:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: قسم کا معنی و مفہوم لکھیں۔

جواب:قسم کو قرآن و حدیث میں یمین کہا جاتا ہے، یمین کی جمع ایمان ہے۔اصطلاحی مفہوم میں کسی مسلمان کا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پختہ عزم کرنا اور دوسرے شخص کو یقین دہانی کروانا یمین کہلاتا ہے۔قسم کے لیے یمین اور حلف کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

سوال۲: قسم کی اقسام لکھیں۔

جواب: قسم کی تین اقسام ہیں:
یمین غموس، یمین لغو، یمین منعقدہ ہیں

سوال۳: قسموں کی حفاظت سے کیا مراد ہے؟

جواب: قسموں کی حفاظت سے مراد ہے اولاً قسم اٹھائی ہی نہ جائے، کیوں کہ مسلمان کی سب سے بڑی خوب یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا، ہمیشہ سچ بولتا ہے، سچ بولنے والے کا معاشرتی سطح پر سچائی کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہو جاتا ہے اور عوام الناس اس کی زبان پر یقین کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر بات بات پر قسم اٹھانے کا رواج عام ہو جائے تو لوگوں کے وقت کے ضیاع کا سبب بنے گا۔

ایک دوسرے سے اعتبار اٹھے گا اور بداعتمادی کی فضا قائم ہوگی جو حسن معاملات و معاشرت کے ہی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں قسم کے احکام یوں بیان ہوئے ہیں:
ترجمہ: اللہ تمہارے لایعنی (بے مقصد) قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن وہ تمہارا ان (قسموں) پر مواخذہ کرے گا جو تم نے پختہ ارادے سے کھائی ہیں تو ان کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اس اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انھیں لباس پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے پھر جو یہ نہ پائے تو تین دن کے روزے(رکھے) یہ تمہارے قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (المائدہ:89)

سوال۴: قسم توڑنے کا کفارہ تحریر کریں۔

جواب:قسم کا کفارہ یہ ہے کہ چاہے تو دس مساکین کو کھانا کھلادے، چاہے تو دس مساکین کو لباس پہنادے، ایسا غلام یا لونڈی آزاد کرے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، اگر اسے ان تین اشیا میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔ قسم کے حوالے سے چوتھی بات یہ ہے کہ جس قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے وہ مستقبل میں کسی کام کے حوالے سے قسم اٹھانا ہے، اس کو یمین منعقدہ کہتے ہیں۔

ماضی کے کسی واقعے پر جھوٹی قسم اٹھانا یمین غموس کہلاتا ہے۔ اس قسم پر کفارہ نہیں ہوتا، لیکن اسلام نے اس قسم کو ناپسند کیا ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے۔ روز مرہ کی گفتگو میں اپنے گمان کے مطابق صحیح قسم اٹھانا لیکن واقعہ کا اس طرح نہ ہونا یمین لغو کہلاتا ہے۔ اس طرح کی قسم سے اللہ رب العزت نے درگزر فرمایا ہے۔

سوال۵: جھوٹی قسم کے نقصانات تحریر کریں۔

جواب: جھوٹی قسم گناہ کبیرہ اور انسانیت کو دھوکا دینا ہے اور جھوٹی قسم اٹھانے والے کی طرف اللہ تعالیٰ بروز قیامت نظر رحمت ہی نہیں فرمائے گا۔ جھوٹی قسم یا حلف، انفرادی اور اجماعی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیں ان سے بچنے کی دعا اور عملی طور پر کوشش بھی کرنی چاہئے۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: قرآن و سنت کی روشنی میں قسم کے احکام و مسائل بیان کریں۔

جواب: قسم کو قرآن و حدیث میں یمین کہا جاتا ہے، یمین کی جمع ایمان ہے۔اصطلاحی مفہوم میں کسی مسلمان کا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پختہ عزم کرنا اور دوسرے شخص کو یقین دہانی کروانا یمین کہلاتا ہے۔قسم کے لیے یمین اور حلف کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

قسموں کی حفاظت سے مراد ہے اولاً قسم اٹھائی ہی نہ جائے، کیوں کہ مسلمان کی سب سے بڑی خوب یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا، ہمیشہ سچ بولتا ہے، سچ بولنے والے کا معاشرتی سطح پر سچائی کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہو جاتا ہے اور عوام الناس اس کی زبان پر یقین کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر بات بات پر قسم اٹھانے کا رواج عام ہو جائے تو لوگوں کے وقت کے ضیاع کا سبب بنے گا۔ ایک دوسرے سے اعتبار اٹھے گا اور بداعتمادی کی فضا قائم ہوگی جو حسن معاملات و معاشرت کے ہی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں قسم کے احکام یوں بیان ہوئے ہیں:

ترجمہ: اللہ تمہارے لایعنی (بے مقصد) قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن وہ تمہارا ان (قسموں) پر مواخذہ کرے گا جو تم نے پختہ ارادے سے کھائی ہیں تو ان کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اس اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انھیں لباس پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے پھر جو یہ نہ پائے تو تین دن کے روزے(رکھے) یہ تمہارے قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (المائدہ:89)

قسم کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ہی ہو۔ اس کے علاوہ والدین اور نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم یا دوسری کسی بھی معتبر یا مقدس چیز کی قسم کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے:
بلاشبہ اللہ تمہیں اپنے آباواجداد کی قسم اٹھانے سے منع فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم : 4254)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بھی قسم نہیں اٹھاتے تھے، کیوں کہ ایک دوسری جگہ پر آپ خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم اٹھائی گویا اس نے شرک کیا۔ (جامع ترمذی: 1535)

قسم کے حوالے سے تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جائز کام سے رکنے کی قسم اٹھالے میں اس کام کو نہیں کروں گا اور اس قسم کو توڑنے میں خیر ہو تو قسم توڑ دی جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا جائے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے کسی کام پر قسم اٹھائی لیکن وہ سمجھتا ہے کہ خیر اور بھلائی اس کی مخالف سمت میں ہے تو وہ خیر والی صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ (صحیح مسلم: 4263)