Aam Ul Wafood in Urdu | عالم الوفود کا معنیٰ اور مفہوم

0
  • سبق نمبر ۱۱:

درج ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں۔

سوال۱: عام الوفود کا معنیٰ اور مفہوم بیان کریں۔

جواب: عام کا معنیٰ ”سال“ اور وفود جمع ہے وفد کی، جس کا معنی لوگوں کی جماعت ہے۔ عام الوفود سے مراد وہ سال ہے جس میں پورے عرب سے کثرت کے ساتھ وفود نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد دور دراز علاقوں میں پیغمبر اسلام خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اعلیٰ اخلاق کے چرچے ہوئے اور لوگوں میں یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم بھی اسلام کے بارے میں سمجھ بوجھ حاصل کریں، لہٰذا بہت سے علاقوں سے جوق در جوق وفود حاضر ہونے لگے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم مدینہ طیبہ آنے وفود کو عموماً مسجد نبوی میں ٹھہراتے تھے۔ ان وفود کا آنا دور دراز کے علاقوں سے ہوتا تھا، جو اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ دور رسالت میں اسلام، پورے جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا۔ ان کے استقبال اور قیام و طعام کا انتظام نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے حسن انتظام، اسلامی آداب اور کریمانہ اخلاق کی عمدہ مثالیں ہیں۔

سوال۲: وفد عبدالقیس کے سردار کا نام لکھیں۔

جواب:وفد عبدالقیس کے سردار کا نام منذر بن عائذ اور لقب ”اشج“ تھا۔ اشج زبان اور دل کا کھرا تھا، وفد عبدالقیس کی بارگاہ نبوی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم میں آمد سے پہلے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو خبر دی کہ مشرق سے کچھ سوار آرہے ہیں جو اسلام قبول کریں گے۔

سوال۳: وفد عبدالقیس کے بارے میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے کون سی دعا فرمائی؟

جواب: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے لیے دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے اللہ! عبدالقیس والوں کی بخشش فرما۔

سوال۴: وفد عبدالقیس کے سردار نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری سے پہلے کیا اہتمام کیا؟

جواب: وفد عبدالقیس کے سردار نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری سے پہلے غسل کیا، عمدہ اور پاکیزہ کپڑے پہنے اور حلم اور وقار کے ساتھ بارگار رسالت میں حاضر دی۔

سوال۵: وفد بنو تمیم کو بارگاہ رسالت میں حاضری کے کیا آداب سکھائے گئے؟

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم ظہر سے پہلے قیلولہ (دوپہر کے وقت آرام) فرمارہے تھے۔ انھوں نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو بے آرام گیا، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو گھر کے باہر پکارا، آوازیں دیتے رہے، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس داخل کی اجازت طلب نہ کی تو اللہ رب العزت نے سورۃ الحجرات نازل فرمائی۔ جس میں رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سکھائے گئے کہ اپنی آوازوں کو نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو۔ نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو یوں نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

سوال۱: وفد بنی نجران کے بارگاہ رسالت میں حاضری کا احوال بیان کریں۔

جواب: عرب کے علاقے نجران میں نصاریٰ بڑی تعداد میں آباد تھے۔ ان کا ایک وفد حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس مدینہ طیبہ آیا۔ یہ وفد ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں چودہ بڑے سردار بھی تھے، پھر ان سرداروں میں تین افراد بہت خاص تھے اور ان کے دینی و دنیاوی معاملات رہی تین افراد دیکھتے تھے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے اس وفد کا پرتپاک استقبال فرمایا، انھیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا، اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کی بہت خاطر تواضع کی گئی۔ یہ وفد حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی نبوت کی خبر سن کر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم سے مناظرہ کرنے کی غرض سے آیا تھا، لہٰذا ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے اور خدا کا بیٹا ہونے پر دلائل دینا شروع کر دیے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے تمام دلائل سماعت فرما کر ایک ایک دلیل کو رد فرمایا،لیکن وہ لوگ اپنی ضد پر ڈٹے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کون سے مباہلہ کرنے کو حکم دیا۔

یہ حکیم نازل ہونے کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے کر نجران کے وفد کے پاس مباہلے کے لیے تشریف لائے۔ جب ان کے پادریوں نے یہ روشن چہرے دیکھے تو کہا کہ اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو یاد رکھو دنیا سے تمہارا نام و نشان تک مٹ جائے گا، چناں چہ انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ ادا کرنے کے لئےتیار ہو گئے۔

اس کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اللہ تعالیٰ کا عذاب اہل نجران کے نزدیک آچکا تھا اور اگر یہ مباہلہ کرتے تو انھیں جانور بنا دیا جاتا، ان کی وادی میں آگ بھڑکتی رہتی اور انھیں ملیا میٹ کردیا جاتا، یہاں تک کہ درختوں پر پرندے بھی ہلاک ہوجاتے اور سال ختم ہونے سے پہلے سارے نصاریٰ فنا کے گھاٹ اتر جاتے۔“