Essay on Haqooq ul Ibad in Urdu | حقوق العباد

0
  • سبق نمبر ۲۱:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حقوق العباد کا معنی اور مفہوم بیان کریں۔

جواب:حقوق العباد سے مراد بندوں کے حقوق ہیں۔ معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی بنیادی ضروریات اکیلا پوری نہیں کر سکتا، لہٰذا اسے بعض ذمہ داریاں ادا کرنے سے کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
قرآن و سنت کی تعلیمات میں معاشرے کی ترقی کا دار و مدار اس بات پرہے کہ انسان خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار بنیں، ان کی ہمدردی،ایثار اور خیر خواہی پر مبنی ہو۔
حقوق العباد میں والدین، بہن، بھائیوں، عزیز و اقارب ، اساتذہ کرام اور غیر مسلمونں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کے حقوق بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

سوال۲: قرآن مجید میں پڑوسی کی کتنی اقسام بیان کی گئی ہیں؟

جواب:قرآن مجیدمیں پڑوسی کی تین اقسام آئی ہیں:
رشتہ دار پڑوسی
قریب رہنے والا پڑوسی
تھوڑی دیر کا پڑوسی

سوال۳: ہمسایوں کے دو حقوق بیان کریں۔

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام مجھے اس طرح بار بار پڑوسی کے حقوق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں۔ (صحیح بخاری: 6015)

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی وغیرہ گاڑنے سے روکے۔ (صحیح بخاری: 5627)

سوال۴: ہمسایوں کے حقوق کے دو معاشرتی اثرات تحر یر کریں۔

جواب:ہمسایوں کے حقوق کا سب سے بڑا معاشرتی اثر یہ ہے کہ معاشرے میں جانثاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاشرتی اثر ہے کہ لوگ ایک دوسرےکے دکھ درد بانٹتےہیں۔ خوشی اور غم میں شریک ہوتےہیں۔ جانی اور مالی سطح پر ہر جائز کام میں تعاون کرتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ انسانی ہمدردی اور تعاون کی مثال پیش کررہا ہوتا ہے۔ افراد معاشرہ ریاست کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو رہے ہوتے ہیں یہی ہمدردیاں اور حسن سلوک کسی ریاست کو کامیاب بناتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم ہمسایوں کے حقوق ادا کریں تاکہ دنیوی اور آخری زندگی میں کامیاب ہو سکیں اور ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

سوال۵: ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ کا ترجمہ لکھیں۔

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے ہمسائے کے حقوق کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے تین دفعہ ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا: وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(صحیح بخاری: 6016)

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں۔

سوال۱: قرآن و سنت کی روشنی میں ہمسایوں کے حقوق واضح کریں۔

جواب: حقوق العباد سے مراد بندوں کے حقوق ہیں۔ معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی بنیادی ضروریات اکیلا پوری نہیں کر سکتا، لہٰذا اسے بعض ذمہ داریاں ادا کرنے سے کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

قرآن و سنت کی تعلیمات میں معاشرے کی ترقی کا دار و مدار اس بات پرہے کہ انسان خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار بنیں، ان کی ہمدردی،ایثار اور خیر خواہی پر مبنی ہو۔
حقوق العباد میں والدین، بہن، بھائیوں، عزیز و اقارب ، اساتذہ کرام اور غیر مسلمونں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کے حقوق بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

قرآن مجید میں متعدد مقاما پر ہمسایوں کے حقوق کا تذکرہ قرابت داروں کے ساتھ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکیوں اور رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے مسافروں کے ساتھ۔

قرآن مجیدمیں پڑوسی کی تین اقسام آئی ہیں:
رشتہ دار پڑوسی
قریب رہنے والا پڑوسی
تھوڑی دیر کا پڑوسی

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے ہمسائے کے حقوق کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے تین دفعہ ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا: وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(صحیح بخاری: 6016)

اسلام کی نظر میں ہمسائے میں صرف ساتھ رہنے والے لوگ شامل نہیں بلکہ ایک محلے میں رہنے والے، کاروباری شراکت دار، ہم سفر اور ہم جماعت، ایک دفتر اور ادارے میں اکٹھے کام کرنے والے تمام افراد ہمسائیگی کے دائرے میں شامل ہیں۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام مجھے اس طرح بار بار پڑوسی کے حقوق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں۔ (صحیح بخاری: 6015)

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی وغیرہ گاڑنے سے روکے۔ (صحیح بخاری: 5627)