Hazrat Umru Bin Umaiya | حضرت عمرو بن امیہ

0
  • سبق نمبر ۲۵:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعارف بیان کریں۔

جواب:آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عمرو، کنیت ابوامیہ تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام امیہ بن خویلد تھا۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آغاز اسلام میں مسلمانوں کے مخالف تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ بدر اور غزوہ احد میں مشرکین مکہ کی طرف سے شرکت کی اور بہادر کے جوہر دکھائے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

سوال۲: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں تحریر کریں۔

جواب: بدر اوراحد کی لڑائیوں میں مشرکین کے ساتھ تھے اورمسلمانوں کے خلاف نہایت شجاعت اورپامردی سے لڑے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

سوال۳: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سفارت کاری کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب:کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری کو اہم حیثیت ہوتی ہے۔ سفارت کاری کے ذریعے ہی سے دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ 6 ہجری میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس اسلام کی دعوت کا خط دے کر بھیجا۔ اس خط میں نجاشی کو دعوت اسلام دینے کے علاوہ مہاجرین کی میزبانی کی سفارش اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام نکاح کا پیغام بھی شامل تھا۔ نجاشی نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

سوال۴: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت و بہادری کے بارے میں مختصر کریں۔

جواب: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کے حکم سے ایک سریہ میں شرکت کی۔ ابوسفیان کے حکم پر ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنے کی کوشش کی۔

اس کے حملہ کرنے سے پہلے ہی نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے اس کا ارادہ بھانپ لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے گرفتار کر لیا، چوں کہ اس سازش کا اصل محرک ابوسفیان تھا، لہٰذا نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابوسفیان کا کام تمام کرنے کے لیے مکہ مکرمہ بھیجا، لیکن وہاں قریش مکہ کو خبر ہونے کی وجہ سے یہ لوگ واپس نکل آئے۔ راستے میں ان لوگوں کی ملاقات عبداللہ بن مالک اور بنوہذیل کے ایک آدمی سے ہوئی، حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ کا سرقلم کر دیا۔حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شجاعت و بہادری اور جرات و دلیری میں عربوں میں ممتاز تھے۔

سوال۵: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کب اور کہاں ہوئی؟

جواب:حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 60 ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔

حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی 20 احادیث کتابوں میں موجود ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی اطاعت میں اپنی زندگی گزاریں تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی تحریر کریں۔

جواب: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عمرو، کنیت ابوامیہ تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام امیہ بن خویلد تھا۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آغاز اسلام میں مسلمانوں کے مخالف تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ بدر اور غزوہ احد میں مشرکین مکہ کی طرف سے شرکت کی اور بہادر کے جوہر دکھائے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری کو اہم حیثیت ہوتی ہے۔ سفارت کاری کے ذریعے ہی سے دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ 6 ہجری میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس اسلام کی دعوت کا خط دے کر بھیجا۔ اس خط میں نجاشی کو دعوت اسلام دینے کے علاوہ مہاجرین کی میزبانی کی سفارش اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام نکاح کا پیغام بھی شامل تھا۔ نجاشی نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کے حکم سے ایک سریہ میں شرکت کی۔ ابوسفیان کے حکم پر ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے حملہ کرنے سے پہلے ہی نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے اس کا ارادہ بھانپ لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے گرفتار کر لیا، چوں کہ اس سازش کا اصل محرک ابوسفیان تھا، لہٰذا نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابوسفیان کا کام تمام کرنے کے لیے مکہ مکرمہ بھیجا، لیکن وہاں قریش مکہ کو خبر ہونے کی وجہ سے یہ لوگ واپس نکل آئے۔ راستے میں ان لوگوں کی ملاقات عبداللہ بن مالک اور بنوہذیل کے ایک آدمی سے ہوئی، حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ کا سرقلم کر دیا۔

حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 60 ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی 20 احادیث کتابوں میں موجود ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کی اطاعت میں اپنی زندگی گزاریں تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔