History of Abu Musa al Ashari In Urdu | حضرت ابو موسیٰ اشعری

0
  • سبق نمبر ۲۳:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام اور کنیت لکھیں۔

جواب:آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوموسیٰ تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کانام قیس اور والدہ کا نام طیبہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے رہنے والے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق یمن کے مشہور قبیلہ اشعر سے تھا۔ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشعری مشہور ہوئے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت پر اسلام لائیں اور مدینہ منورہ میں وفات پائی۔

سوال۲: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب:مکہ مکرمہ میں اسلام کا سورج طلوع ہونے کی خبر سن کر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہ حق کی تلاش کے لیے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان کو دعوت دینے کے لیے یمن لوٹ گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوششوں سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے کے پچاس افراد نے اسلام قبول کیا۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یمن سے ایک جماعت کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اس وقت نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب آپ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم فتح خیبر کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے یمن پر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عامل مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: تم دونوں آسانی پیدا کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا، خوش خبری دینا، دور نہ بھگانا، آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔ (صحیح مسلم: 4526)

سوال۳: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارہائے نمایاں اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

جواب:حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ کو بصرہ اور کوفہ کاوالی مقرر فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہاوند اور اصفہان کے علاقے فتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کیے۔بصرہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہر تعمیر کروائی جو ”نہرابی موسیٰ“ کے نام سے مشہور ہے۔

سوال۴: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کب اور کتنے برس کی عمر میں وفات پائی؟

جواب:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوالحجہ کے مہینے میں 44 ہجری کو وفات پائی۔وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 61 سال تھی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی سیرت و کردار کے مختلف پہلوؤں سے راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی اطاعت کریں تاکہ ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔

سوال۵: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عامل مقرر کرتے ہوئے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے یمن پر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عامل مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: تم دونوں آسانی پیدا کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا، خوش خبری دینا، دور نہ بھگانا، آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔ (صحیح مسلم: 4526)

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی تحریر کریں۔

جواب: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوموسیٰ تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کانام قیس اور والدہ کا نام طیبہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے رہنے والے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق یمن کے مشہور قبیلہ اشعر سے تھا۔ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشعری مشہور ہوئے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت پر اسلام لائیں اور مدینہ منورہ میں وفات پائی۔

مکہ مکرمہ میں اسلام کا سورج طلوع ہونے کی خبر سن کر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہ حق کی تلاش کے لیے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان کو دعوت دینے کے لیے یمن لوٹ گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوششوں سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے کے پچاس افراد نے اسلام قبول کیا۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یمن سے ایک جماعت کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اس وقت نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب آپ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم فتح خیبر کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے یمن پر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عامل مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: تم دونوں آسانی پیدا کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا، خوش خبری دینا، دور نہ بھگانا، آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔ (صحیح مسلم: 4526)

دس ہجری میں نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نےحج کا اعلان فرمایا تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے پوچھا ”عبداللہ بن قیس! کیا تم حج کے ارادے سے آئے ہو؟“ عرض کی: جی یا رسول اللہ، نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم نے فرمایا نیت کیا تھی؟ انھوں نے جواب دیا جو رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی نیت ہے وہی میری نیت ہے۔ ارشاد فرمایا قربانی ساتھ لائے ہو؟ عرض کی نہیں، حکم ہوا، تم طواف اور سعی کرکے احرام کھول دو۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ کو بصرہ اور کوفہ کاوالی مقرر فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہاوند اور اصفہان کے علاقے فتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کیے۔بصرہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہر تعمیر کروائی جو ”نہرابی موسیٰ“ کے نام سے مشہور ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت متقی، پرہیزگار اور نیک سیرت صحابی تھے۔ خشیت الہیٰ اتباع رسول خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم توکل ، شرم وحیا، امت مسلمہ کی خیر خواہی سادگی خدمت رسول خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم تقویٰ اور پرہیزگاری آپ کی سیرت کے نمایاں اوصاف تھے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوالحجہ کے مہینے میں 44 ہجری کو وفات پائی۔وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 61 سال تھی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی سیرت و کردار کے مختلف پہلوؤں سے راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کی اطاعت کریں تاکہ ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔

سوال۲: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی خدمات بیان کریں۔

جواب:حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارگاہ رسالت مآب میں خاص قرب حاصل تھا۔ آپ ان اچھے افراد میں سے تھے جن کو عہد رسالت میں فتویٰ دینے کی اجازت تھی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ابو موسیٰ سرتاپا علم کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔“

قرآن و سنت کی اشاعت اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندگی بھر کوشاں رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصول تھا کہ جو کچھ کسی کو معلوم ہے وہ ضرور دوسروں تک پہنچانا چاہئے۔ جہاں کہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چند لوگ اکٹھے مل جاتے آپ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تک کوئی نہ کوئی حدیث پہنچا دیتے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 360 احادیث مروی ہیں۔ جن میں 50 متفق علیہ ہیں، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غیرمعمولی شغف اور انہماک تھا۔ فرصت کا تمام وقت قرآن مجید کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز اس قدر عمدہ اور سریلی تھی کہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم فرماتے تھے کہ ”ان کو لحن داؤدی سے حصہ ملا ہے۔“

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم کو حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن مجید پڑھنا اس قدر پسند تھا کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابی وسلم ان کو جہاں قراءت کرتے ہوئے سنتے، وہیں کھڑے ہو جاتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں فرمائش کرکے ان سے قرآن مجید سنا کرتے تھے۔