Jismani Riyazat In Islam | جسمانی ریاضت کی تعریف

0
  • سبق نمبر ۳۶:

درج ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

سوال۱: جسمانی ریاضت سے کیا مراد ہے؟

جواب: جسمانی ریاضت سے مراد ہے انسان اپنے مادی وجود کی بہتری اور جسمانی صحت کے لیےمختلف مشاغل میں خود کو مصروف کرے۔ جسمانی ریاضت ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ ورزش اور جسمانی صحت انسانی جسم کو متوازن کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی پٹھوں کی نشو ونما میں بھی مدد کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی جسم میں خون کی پیداور بڑھتی ہے، اسی طرح ورزش جسم میں آکسیجن کی سطح اور خون کے بہاؤ کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش انسانی صحت کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ ورزش کے علاوہ کھیل بھی جسمانی ریاضت اور اس کے نتیجے میں انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہے۔

کھیل کا انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، کیوں کہ کھیل کے میدان میں ہر وقت مستعد رہنا پڑتا ہے اور ذہن کو ہر وقت استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کھیل سے جب انسانی جسم صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات انسانی دماغ پر بھی مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہے۔

سوال۲: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے کون سے کھیلوں کی ترغیب دی ہے؟

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے گھڑسواری، نیزہ بازی، تیراندازی، دوڑ، کشتی اور تیراکی وغیرہ کی ترغیب دی ہے۔ یہ تمام کھیل جسمانی ریاضت میں شمار ہوتے ہیں، جن سے انسان کی جسمانی و ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔

سوال۳: جسمانی ورزش کے ہمارے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جواب: اسلام ایسے کھیلوں اور ورزشوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کیوں کہ جسمانی ریاضت اور ورزش انسان کے ذہن و جسم پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ورزش سے انسانی جسم میں بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ورزش انسانی جسم میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے ذہن و دماغ پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے انسان کے جسم کے پٹھے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔

سوال۴: کن دو چیزوں کو نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے بڑی نعمت قرار دیا ہے؟

جواب:صحت مند انسان اور صحت مند دماغ اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرنا انسان کا اولین فرض ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے:
”دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے اور وہ صحت اور فراغت ہیں۔“(صحیح البخاری: 6412)

سوال۵: ہمیں اپنی جسمانی و ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: جسمانی ریاضت ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ ورزش اور جسمانی صحت انسانی جسم کو متوازن کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی پٹھوں کی نشو ونما میں بھی مدد کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی جسم میں خون کی پیداور بڑھتی ہے، اسی طرح ورزش جسم میں آکسیجن کی سطح اور خون کے بہاؤ کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش انسانی صحت کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔

ورزش کے علاوہ کھیل بھی جسمانی ریاضت اور اس کے نتیجے میں انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہے۔ کھیل کا انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، کیوں کہ کھیل کے میدان میں ہر وقت مستعد رہنا پڑتا ہے اور ذہن کو ہر وقت استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کھیل سے جب انسانی جسم صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات انسانی دماغ پر بھی مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہے۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں:

سوال۱: جسمانی و ذہنی صحت کی اہمیت بیان کریں۔

جواب: دین اسلام انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ دین اسلام نہ صرف انسان کی روحانی اصلاح اور تربیت کے لیے ہدایت فراہم کرتا ہے بلکہ انسان کے مادی وجود کی بہتری اور جسمانی صحت کے لیے بھی راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے پیش نظر ایسے معاشرے کی تشکیل ہے، جس کے تمام شہری صحت مند، توانا اور جسمانی طور پر مضبوط ہوں، اسی لیے اسلام نے عبادات کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم اور صحت کے حوالے سے بھی بنیادی تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راہ نمائی اور سربراہی کے لیے صحت اور علم کو فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: اور (اللہ نے) اسے علم اور جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

صحت مند انسان اور صحت مند دماغ اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرنا انسان کا اولین فرض ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے:
”دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے اور وہ صحت اور فراغت ہیں۔“(صحیح البخاری: 6412)

اسلام میں انسان کی جسمانی صحت کی اہمیت اس قدر ہے کہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے جسمانی طور پر کمزور اور توانا شخص کو کمزور شخص سے بہتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: طاقتور مومن اللہ کے نزدیک یک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح مسلم: 6774)

انسانی صحت کی اسی اہمیت کی وجہ سے بہت سی ایسی تعلیمات ہیں، جن سے انسان کو ورزش کی تلقین ملتی ہے، کیوں کہ ورزش ایک ایسا عمل ہے جس سے انسانی جسم صحت مند رہتا ہے۔ ورزش کا ایک طریقہ کھیل کود ہے، چناں چہ اسلام ایسے تمام کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس سے انسانی جسم صحت مند رہتا ہے اور اس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے گھڑسواری، نیزہ بازی، تیراندازی، دوڑ، کشتی اور تیراکی وغیرہ کی ترغیب دی ہے۔ یہ تمام کھیل جسمانی ریاضت میں شمار ہوتے ہیں، جن سے انسان کی جسمانی و ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔

جسمانی ریاضت ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ ورزش اور جسمانی صحت انسانی جسم کو متوازن کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی پٹھوں کی نشو ونما میں بھی مدد کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی جسم میں خون کی پیداور بڑھتی ہے، اسی طرح ورزش جسم میں آکسیجن کی سطح اور خون کے بہاؤ کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔

ورزش انسانی صحت کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ ورزش کے علاوہ کھیل بھی جسمانی ریاضت اور اس کے نتیجے میں انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہے۔ کھیل کا انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، کیوں کہ کھیل کے میدان میں ہر وقت مستعد رہنا پڑتا ہے اور ذہن کو ہر وقت استعمال کرنا ہوتا ہے۔

اس طرح کھیل سے جب انسانی جسم صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات انسانی دماغ پر بھی مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہے۔

انسانی جسم کے لیے جسمانی ریاضت اور ورزش کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے مختلف کھیلوں اور ورزش کی تلقین کی ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے کئی مواقع پر جسمانی ریاضت کی حوصلہ افزائی فرمائی، جس سے جسمانی ریاضت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

جسمانی ریاضت کا ایک پہلو اخلاق سنوارنا بھی ہے، جس طرح کھانے پینے میں توازن رکھنا، پانی بیٹھ کر پینا، سانس لے کر پینا، کھانا بیٹھ کر کھانا اور کھانا کھاتے ہوئے بھوک رکھ کر کھانا، غذائی اعتبار سے کھانے پینےکی چیزوں کو استعمال کرنا اور ان کی حفاظت کرنا،جہاں جسمانی و ذہنی صحت کا سبب بنتا ہے،و ہاں جسمانی ریاضت اچھے اخلاق کی ضمانت بھی ہے۔