Seerat e Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam | سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر ۱۲:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب تحریر کریں:

سوال۱: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب:حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول، بروز پیر بمطابق 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی پیدائش کے تقریباً دو ماہ پہلے انتقال فرما چکےتھے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی پیدائش کے چھے سال بعد وصال فرماگئیں۔

سوال۲: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب: حليمہ بنت ابی ذؤيب نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں، بی بی ثویبہ کے بعد نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو آپ نے ہی آخر تک دودھ پلایا، اس وقت آپ کے ساتھ عبد اللہ ابن حارث کو بھی دودھ پلایا، آپ کی بڑی بیٹی شیما حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گود میں کھلاتی لوریاں دیتی تھیں۔

سوال۳: حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم سے کون سا دوہرا رشتہ تھا؟

جواب:سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے چچا ہیں۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے، نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم اس دوہرے رشتے کی وجہ سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے بہت شفقت اور محبت کے جذبات رکھتے تھے۔ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ غزوہ احد میں ان کی شہادت پر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم بہت غمگین ہوئے اور بعد ازاں کثرت سے ان کی قبر پر جایا کرتے تھے۔

سوال۴: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کا بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک تحریر کریں۔

جواب:آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے سگے بہن بھائی نہیں تھے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت شیما نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو گود میں کھلایا کرتی تھیں اور پنگھوڑے میں لوریاں دیتی تھیں۔ غزوۂ حنین میں حضرت شیما قیدیوں میں شامل تھیں۔ انھوں نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو اپنا تعارف کروایا تو آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے بڑی عزت افزائی فرمائی، چادر بچھائی، احترام سے بٹھایا اور ارشاد فرمایا: مانگو تمہیں دیا جائے گا، قیدیوں کی سفارش کرو، انھیں تمہاری وجہ سے امان دی جائے گی۔ پھر ان کی سفارش پر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔

درج ذیل سوالات کے تفصلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں دوسروں کو راحت رسانی اور خدمت خلق پر نوٹ لکھیں۔

جواب:ایک دفعہ عرب میں سخت قحط پڑ گیا تو سرداران عرب، کعبہ کے متولی حضرت ابوطالب کے پاس آئے، انھوں نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو ساتھ لیا، حرم میں دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوئے۔ دعا کے درمیان حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً اس زور کی بارش برسی کہ زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا، چٹیل میدانوں کی زمینیں سرسبز و شاداب ہو گئیں اور قحط ختم ہو گیا۔ (الملل والنحل:ج:۲، ص:۲۴۹)

پورے عرب کے مظلوموں کی راحت رسانی اور قیام امن کے لئے آپ نے حلف الفضول نامی معاہدے میں بھی شرکت فرمائی۔ اس معاہدے میں شرکانے یہ طے کیا کہ ملک سے بدامنی کو دور کریں گے، مظلوموں، مسافروں اور غریبوں کی حفاظت اور مدد کریں گے، کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔ اس معاہدے سے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو اتنی خوشی ہوئی کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم فرمایا کرتے تھے، اگر اس معاہدے کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی۔ ایک دفعہ ایک عورت نے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کو اپنی مدد کے لیے پکارا تو آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے اس کی داد رسی فرمائی۔