Takabbur in Islam Urdu | تکبر کا معنیٰ و مفہوم

0
  • سبق نمبر ۱۷:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: تکبر کا معنیٰ و مفہوم بیان کریں۔

جواب:انسان کا اپنے آپ کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے۔ انسان کی باطنی بیماریوں میں تکبر بہت بری اور بڑی بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کو متکبر اور مغرور کہا جاتا ہے، اس طرح کا شخص گویا کہ خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔

سوال۲: تکبر کی مذمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان لکھیں۔

جواب:اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس نے انکار کیا اور اس کے انکار کی وجہ یہی تکبر تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور(یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس نےانکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ (سورۃ البقرۃ: 34)

سوال۳: تکبر کی کوئی سی دو صورتیں تحریر کریں۔

جواب:تکبر کی مختلف صورتوں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کے ساتھ خودکو شریک ٹھہرانا ہے، جیسے فرعون اور نمرود نے رب ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انبیا کرام اور رسل علیہم السلام کے مقابلے میں خود کو بڑا سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کی گئی ان عظیم شخصیات سے بغض رکھا جائے، ان کی اطاعت و پیروی نہ کی جائے۔

جس طرح بعض اہل مکہ نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی نبوت کا صرف اس لیے انکار کیا کہ بنو ہاشم کے خاندان میں جناب عبداللہ کے گھر ایک یتیم بچہ بڑا ہو کر کس طرح نبوت کا دعوے دار ہو سکتا ہے؟ ان کا موقف تھا کہ نبوت کسی بڑے شہر میں کسی بڑے مال دار آدمی کا حق تھا۔ اس اعتراض کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:
ترجمہ: اور وہ کہنے لگے یہ قرآن کیوں نہیں نازل ہوا(مکہ اور طائف کی) دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر؟(سورۃ الذخرف: 31)

سوال۴: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے تکبر کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا؟

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ وعلیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ (صحیح مسلم: 91)

سوال۵: کن اعمال سے تکبر کا خاتمہ ممکن ہے؟

جواب:دوسروں کو سلام میں پہل کرنا، کسی شخص کی نصحیت کو قبول کرنا، غصہ نہ کرنا اور کسی کو حقیر نہ سمجھنا تکبر کا خاتمہ کرتا ہے اور انسان کے دل میں عاجزی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں:

سوال۱: قرآن و سنت کی روشنی میں تکبر کی مذمت اور وعید تحریر کریں۔

جواب: متکبر انسان دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں خود کو بڑا تصور کرتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور کو بھی قبول نہیں کرتا انسان کے اندر تکبر بعض اوقات کثرت علم سے پیدا ہوتا ہے، اور بعض اوقات عبادت و ریاضت، مال و دولت کی کثرت، حسب اور نسب پر فخر، عہد و منصب ، کامیابی کامرانی کے حصول، حسن و جمال اور طاقت و قوت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: وہ آخرت کا گھر ہے، جسے ہم نے بنایا ہے ان لوگوں کے لیے جو نہ زمین پر بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور نیک کام انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔ (سورۃ القصص:83)

اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس نے انکار کیا اور اس کے انکار کی وجہ یہی تکبر تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور(یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس نےانکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ (سورۃ البقرۃ: 34)

سوال۲: متکبر انسان کن اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے؟وضاحت کریں۔

جواب:انسان جب تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنی جھوٹی انا کےتحفظ کے لیے برے اخلاق کا سہارا لیتا ہے اور ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے جو اس کی خود ساختہ عزت کو بچا سکے۔ اس نحوست کی وجہ سے انسان جھوٹ، غیبت، گالم گلوچ اور دیگر اخلاقی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انسان معاشرےمیں امن کی زندگی نہیں گزار سکتا، ایسے شخص کو اطمینان قلب جیسی عظیم کیفیت سے محروم رہنا پڑتا ہے، لامحالہ اس کا انجام دنیا اور آخرت میں ذلیل ہونا ہوتا ہے، متکبر آدمی اپنے قریب بیٹھنے والوں سے نفرت کرتا ہے، مریضوں اور بیماروں سے بھاگتا ہے، آدمی گھر کے کام کا میں حصہ نہیں لیتا۔

متکبر انسان دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں خود کو بڑا تصور کرتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور کو بھی قبول نہیں کرتا انسان کے اندر تکبر بعض اوقات کثرت علم سے پیدا ہوتا ہے، اور بعض اوقات عبادت و ریاضت، مال و دولت کی کثرت، حسب اور نسب پر فخر، عہد و منصب ، کامیابی کامرانی کے حصول، حسن و جمال اور طاقت و قوت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

تکبر کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔اس بیماری سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہوئے اور انبیاء کرام علیھم السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے غرور و تکبر سے باز رہیں، تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکیں اور ہمارا معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن سکے۔