Elan e Nabuwat in Urdu | اعلان نبوت

0
  • سبق نمبر ۱۳:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریرکریں:

سوال۱: اعلان نبوت سے پہلے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی عبادت گزاری کا کیا عالم تھا؟

جواب:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اعلان نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی بے حد عبادت فرماتے تھے۔ عبادت میں یک سوئی حاصل کرنے کے لئے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم غارحرا میں بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔

اسی غار میں عبادت کے دوران میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرتا تھا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ نمازوں کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔

سوال۲: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم عبادت کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے؟ ایک مثال دیں۔

جواب:نماز اور کثرت عبادت کی وجہ سے رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم س عرض کیا گیا کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں، حالاں کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم گناہوں سے پاک ہیں۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“ (جامع ترمذی: 412)

نماز تمام عبادات میں سے افضل و اشرف عبادت ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو نماز سے اس قدر محبت تھی کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو جو خوشی، مسرت اور ذوق نماز میں حاصل ہوتا تھا وہ کسی اور عبادت میں حاصل نہ ہوتا تھا۔

سوال۳: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی رات کی عبادت کا کیا معمول بیان فرمایا ہے؟

جواب:سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں فرمایا:
”رسول اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم رات کے ابتدائی حصہ میں سو جاتے تھے۔ پھر اٹھ کر قیام کرتے اور سحری کرتے اور سحری کے قریب وتر پڑھتے، پھر اپنے بستر پر تشریف لاتے۔ پھر جب اذان (فجر) سنتے تو تیزی سے اٹھ پڑتے۔“(صحیح بخاری: 1146)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم عبادت کے لیے خود بھی کمر بستہ ہو جاتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے۔

سوال۴: عبادات میں اعتدال اور میانہ روی سے کیا مراد ہے؟

جواب:دین اسلام عبادات میں بھی میانہ روی اور اعتدال کا حکم دیتا ہے۔

عبادت میں میانہ روی سے یہ مراد ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے ، اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنی صحت اور ضرورتوں کا بھی خیال رکھے۔ انسان اگر زندگی کا یہ لمحہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے احکام کے مطابق گزارتا ہے تو وہ لمحہ بھی عبادت شمار ہوگا۔نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے عبادت میں میانہ روی اور اعتدال اپنانے کا حکم دیا۔

سوال۵:نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے عبادت میں میانہ روی کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کیا نصحیت کی؟

جواب: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یہ صحیح ہے۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور آرام بھی، روزے بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی، کیوں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ (صحیح بخاری: 6134)

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے ذوق عبادت اور خشوع و خضوع پر روشنی ڈالیں۔

جواب: حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی تعلیمات نے سرزمین عرب میں روحانی انقلاب برپا کر دیا۔ وہ خطۂ زمین جہاں بتوں کی پرستش ہوا کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی یاد تک دلوں سے محو ہو گئی تھی، ان کے خیالات کا رخ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف ہو گیا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے ذوق عبادت اور خشوع و خضوع سے راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے منور کریں اور اپنی راتوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آباد کریں۔آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرتا تھا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔

نمازوں کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو خاص شغف تھا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفلی روزے بھی رکھتے تھے۔

سوال۲: دین اسلام نے عبادات میں میانہ روی اور اعتدال کے بارے میں کیا احکام دیے ہیں؟

جواب: دین اسلام عبادات میں بھی میانہ روی اور اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ عبادت میں میانہ روی سے یہ مراد ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے ، اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنی صحت اور ضرورتوں کا بھی خیال رکھے۔ انسان اگر زندگی کا یہ لمحہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے احکام کے مطابق گزارتا ہے تو وہ لمحہ بھی عبادت شمار ہوگا۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے عبادت میں میانہ روی اور اعتدال اپنانے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یہ صحیح ہے۔

آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور آرام بھی، روزے بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی، کیوں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ (صحیح بخاری: 6134)