Sakhawat and Essar in Islam | سخاوت و ایثار

0
  • سبق نمبر ۱۴:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: سخاوت و ایثار سے کیا مراد ہے؟

جواب: سخاوت کا معنیٰ کھلے دل سے خرچ کرناہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال عطا فرمایا ہے، اس میں سے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا سخاوت کہلاتا ہے۔ انسان اگر اپنی ضرورت اور حاجت ہونے کے باوجود خرچ کرے تو یہ بہترین سخاوت ہے، اسی کو ایثار کہا جاتا ہے۔سخاوت کے مختلف طریقے ہیں: مثلاً فقرا اور مساکین کو کھانا کھلانا، یتیموں کی پرورش کرنا، بیواؤں کی مالی مدد کرنا اور عوامی فلاح و بہبود کے مختلف امور انجام دینا۔

سوال۲: سخاوت کی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان بیان کریں۔

جواب:سخاوت کی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”اور وہ اپنے آپ پر(انھیں) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انھیں شدید حاجت ہو۔“(سورۃ الحشر: 9)

سوال۳: انصاری صحابی کو نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے مہمان کے متعلق کیا ارشاد فرمایا؟

جواب:ایک مرتبہ رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آکر کہا کہ میں بھوکا ہوں، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کے پاس مہمان کے کھانے کے انتظام کا پیغام بھیجا، انھوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس پیغام بھیجا، انھوں نے بھی اسی طرح کہا، حتیٰ کہ سب نے اسی طرح کہا۔

آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا آج رات کون اس شخص کو مہمان بنائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ! میں اس کی ضیافت کروں گا۔وہ اس کو اپنے گھر لے گئے اور اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تمہارے پاس کھانے کے لیے کیا کچھ ہے؟ بیوی نے کہا صرف بچوں کے لیے کھانا ہے۔

انھوں نے کہا ان کو بہلا کر سلا دو اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں پھر سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا جب صبح ہوئی تو وہ صحابی نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا جس طرح رات کو اپنے مہمان کی ضیافت کی ہے، اس سے اللہ بہت خوش ہوا۔ (صحیح مسلم؛ 2054)

سوال۴: سخاوت کی مالی، بدنی اور علمی صورتوں کی وضاحت کریں۔

جواب:سخاوت کو اگر وسیع مفہوم میں دیکھا جائے تو مال و دولت کے ساتھ ساتھ علم، وقت اور صحت میں بھی انسان سخاوت کر سکتا ہے ۔ علم کی بات اس شخص کو بتانا جو واقف نہیں، یہ بھی سخاوت ہے۔ کسی بیمار اور پریشان حال شخص کو وقت دے دینا جس سے اس انسان کا دل بہل جائے، یہ بھی سخاوت ہے۔ صحت مندر آدمی کا کسی بیمار، بوڑھے اور کمزور شخص کے کسی معاملے میں مدد کرنا بھی سخاوت ہے۔

سوال۵: غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتنا مال نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا؟

جواب:غزوہ تبوک 9 ہجری کے موقع پر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا: آج کوئی ایسا شخص ہے جو لشکر کی تیاری میں میری مدد کرے تو میں اس کو جنت کی بشارت دیتا ہوں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب مال واسباب آپ کی بارگاہ میں نچھاور کردیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کا نصف مال پیش کردیا او رحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سامان جہاد سے لدے سیکڑوں اونٹ اور اشرفیاں بارگاہ رسالت میں پیش کر دیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: سیرت طیبہ سے سخاوت کو مثالوں سے واضح کریں۔

جواب: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم سے جو کچھ مانگا جاتا آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم عطا فرمادیتے، ایک شخص حاضر ہوا اور سوال کیا تو آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے اسے صدقے کے مال میں سے اتنی بکریاں دینے کا حکم فرمایا کہو ہ دو پہاڑوں کے درمیان کو بھر دیتیں، وہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم اسلام لے آؤ، بے شک محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اس قدر عطا فرماتے ہیں کہ محتاجی کا خوف نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم: 2312)

ایک مرتبہ رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آکر کہا کہ میں بھوکا ہوں، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کے پاس مہمان کے کھانے کے انتظام کا پیغام بھیجا، انھوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس پیغام بھیجا، انھوں نے بھی اسی طرح کہا، حتیٰ کہ سب نے اسی طرح کہا۔

آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا آج رات کون اس شخص کو مہمان بنائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ! میں اس کی ضیافت کروں گا۔وہ اس کو اپنے گھر لے گئے اور اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تمہارے پاس کھانے کے لیے کیا کچھ ہے؟ بیوی نے کہا صرف بچوں کے لیے کھانا ہے۔ انھوں نے کہا ان کو بہلا کر سلا دو اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں پھر سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا جب صبح ہوئی تو وہ صحابی نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا جس طرح رات کو اپنے مہمان کی ضیافت کی ہے، اس سے اللہ بہت خوش ہوا۔ (صحیح مسلم؛ 2054)

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی سخاوت کا وہ عالم تھا کہ بعض اوقات اگر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا اور کوئی مانگنے والا آجاتا تو اپنی ضمانت دے کر مطلوبہ شے کسی سے لے کر حاجت مند کی ضرورت پوری فرمادیتے۔ ایک شخص آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، کسی چیز کا سوال کیا تو آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس وقت میرے پاس کوئی شے نہیں، ہاں تم میری ضمانت پر اپنی مطلوبہ اشیا خرید لو جب ہمارے پاس کچھ آجائے گا ہم اس کی قیمت ادا کردیں گے۔ (شمائل ترمذی:338)

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے کبھی انکار کیا ہو۔ (صحیح مسلم: 2311)