Roza Meaning, Types and Importance In Urdu | روزہ کی احادیث

0
  • سبق نمبر 8:

درج ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

سوال۱: صوم کا معنیٰ و مفہوم تحریر کریں۔

جواب:ارکان اسلام میں روزے کو بنیادیاہمیت حاصل ہے۔ روزے کے لئے قرآن وحدیث میں لفظ ”صوم“ یا ”صیام“ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی رک جانے یا بچ جانے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں وہ عبادت جس میں ایک مسلمان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور اپنی جائز نفسانی خواہشات سے کر جاتا ہے، اسے ”صوم“ یعنی روزہ کہا جاتا ہے۔ روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا۔

سوال۲: روزے کے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جواب: روزہ رکھنے سے جہاں اطمینان قلب اور صبر و شکر جیسے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں کم کھانے کی وجہ سے معدے کو پورا مہینا آرام ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

سوال۳: روزہ انسان کو پابندی وقت اور نظم و ضبط کا کس طرح درس دیتا ہے؟

جواب: مقررہ وقت پر سحری اور افطاری انسان کو نظم و ضبط کی پابندی کا درس دیتی ہے۔

سوال۴: رمضان المبارک میں کی جانے والی مالی عبادات کون سی ہیں؟

جواب:رمضان المبارک میں کی جانے والی مالی عبادات میں کثرت سے صدقات و خیرات کا اہتمام ہے، جس سے معاشرے کے نادار اور غریب افراد کی مدد ہو سکے اور وہ بھی عید الفطر کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ رمضان المبارک میں کثرت سے عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مال میں سے صدقات و خیرات غریب غرباء میں تقسیم کرنے سے مالی عبادت بھی اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے۔

سوال۵: روزے کے کوئی سے دو معاشرتی فوائد تحریر کریں۔

جواب:روزہ سےمسلمانوں میں تقویٰ و پرہیزگاری، جسمانی و روحانی طہارت اور ایثار ہمدردی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ روزے کی حالت میں دوسروں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

روزے کی برکات حاصل کرنے کے لیے لوگ زکوۃ و صدقات اداکرتے ہیں، جس سے غربا، مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

درج ذیل سوالات کےتفصیلی جواب دیں۔

سوال۱: قرآن و سنت کی روشنی میں روزے کی اہمیت اور فضیلت تحریر کریں۔

جواب: روزے کے لئے قرآن وحدیث میں لفظ ”صوم“ یا ”صیام“ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی رک جانے یا بچ جانے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں وہ عبادت جس میں ایک مسلمان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور اپنی جائز نفسانی خواہشات سے کر جاتا ہے، اسے ”صوم“ یعنی روزہ کہا جاتا ہے۔

روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم (نافرمانی سے) بچ سکو۔ (سورۃ البقرۃ:183)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں روزے کے فرض ہونے کے ذکر کے ساتھ ساتھ روزے کے اولین مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سفر اور مرض کے علاوہ روزہ ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ روزے کا مقصد چوں کہ پرہیزگاری کا حصول ہےاس لیے کھانے پینے سے رکنا ہی روزے کا تقاضا نہیں بلکہ جسم کے تمام اعضا کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکنا بھی روزہ ہے۔

نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو شخص جھوٹ اور بے ہودہ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔“ (سنن ابی داؤد: 2362)

طلوع فجر سے سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہےاور مغرب کا وقت شروع ہونے پر افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
خود سحری و افطاری کرنے یا کسی دوسرے مسلمان کو کروانے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا ارشادہے کہ سحری کرو کیوں کہ سحری کرنے میں برکت ہے۔ (صحیح مسلم: 1923)

کسی مسلمان کو افطار کروانے کے لئے صرف کھجور، پانی یا حسب توفیق دسترخوان بچھانے پر بھی اجرو ثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے۔ (جامع ترمذی:8047)

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں خواتین و حضرات اعتکاف کی سنت ادا کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی عبادت میں کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ازواج مطہرات نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے ساتھ روزے رکھتیں اور اعتکاف بھی کیا کرتیں تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم ہر سال رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری: 1903)

سوال۲: روزے کے فوائد و ثمرات بیان کریں۔

جواب: روزے کے فوائد و ثمرات درج ذیل ہیں:
روزہ رکھنے سے جہاں اطمینان قلب اور صبر و شکر جیسے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں کم کھانے کی وجہ سے معدے کو پورا مہینا آرام ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
روزے کی برکات حاصل کرنے کے لیے لوگ زکوۃ و صدقات اداکرتے ہیں، جس سے غربا، مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
مقررہ وقت پر سحری اور افطاری انسان کو نظم و ضبط کی پابندی کا درس دیتی ہے۔
روزہ سےمسلمانوں میں تقویٰ و پرہیزگاری، جسمانی و روحانی طہارت اور ایثار ہمدردی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ روزے کی حالت میں دوسروں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
روزے کی وجہ سے نیکی اور تقویٰ کی فضا پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں عبادت کا شوق بڑھ جاتا ہے اور روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔

رمضان المبارک میں کی جانے والی مالی عبادات میں کثرت سے صدقات و خیرات کا اہتمام ہے، جس سے معاشرے کے نادار اور غریب افراد کی مدد ہو سکے اور وہ بھی عید الفطر کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ رمضان المبارک میں کثرت سے عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مال میں سے صدقات و خیرات غریب غرباء میں تقسیم کرنے سے مالی عبادت بھی اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے۔