Hazrat Abu Al Qushayri Biography | حضرت ابو القاسم قشتیری

0
  • سبق نمبر ۲۹:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت ابو القاسم قشتیری کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: آپ کی ولادت باسعادت ماہِ ربیع الاول/376ھ،مطابق جولائی /986ءکوبمقام”استواء”مضافاتِ نیشاپور میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام عبدالکریم تھا۔ اپنے آباؤاجداد میں ایک بزرگ قشیر کی وجہ سے قشیری معروف ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۹۸۶ء میں ایران کے علاقے نیشاپور کے قریب استوانامی بستی میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بچپن ہی میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد وفات پا گئے۔

سوال۲:رسالہ قشیریہ کا مختصر تعارف بیان کریں۔

جواب: تصوف میں حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”رسالہ قشیریہ“ ایک ایسا مختصر اور جامع رسالہ ہے، جس میں تصوف کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے، جس کی ابتدا میں تصوف کے عقائد بیان کیے گئے ہیں، اس کے بعد 83 صوفیہ کرام کے حالات قلم بند کیےگئے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: حضرت ابو القاسم قشتیری کے حالاتِ زندگی اور تصوف کے بارے میں ان کی تعلیمات پر مختصر نوٹ تحریر کریں؟

جواب:آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام عبدالکریم تھا۔ اپنے آباؤاجداد میں ایک بزرگ قشیر کی وجہ سے قشیری معروف ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۹۸۶ء میں ایران کے علاقے نیشاپور کے قریب استوانامی بستی میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بچپن ہی میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد وفات پا گئے۔ امام قشیری نے دین و تصوف کی بنیادی تعلیم اپنے شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ امام دقاق رحمۃ اللہ علیہ اخلاص و محبت کا پیکر تھے، یہی اخلاص امام قشیری کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں کھینچ لایا۔

آپ نے علم کے لئے کئی بلادِاسلامیہ کاسفرکیا اورمتعدد مشاہیرِ اسلام سے اخذ ِعلم کیا۔جن ابوالحسین بن بشران ،ابن الفضل بغدادی،ابومحمد کوفی،ابونعیم،ابوالقاسم بن حبیب قاضی،ابوبکر طوسی۔مشہور محدث امام ابوبکر بیہقی اور امام الحرمین جوینی کی صحبت میں رہے،اور ان کی معیت میں حج کی سعادت بھی حاصل کی،اسی طرح تصوف اور اخلاق کے متعدد شیوخ ہیں۔

التیسیر فی علم التفسیر اور لفائف القرآن فی تفسیر القرآن، علم التفسیر میں آپ کی نمایاں کتب ہیں۔ اسمائے باری تعالیٰ پہ التخبیر فی علم التذکیر فی معانی اسم اللہ تعالیٰ آپ کی معتبر کتاب ہے جو اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ قرون اولیٰ کے صوفیہ کرام علم دین اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے لبریز قلوب و اذہان کے مالک تھے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس موضوعات پر احادیث مبارکہ جمع کی ہیں، جو معاشرتی اصلاح کے حوالے سے اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ”کشف المحجوب“ میں امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ متاخرین صوفیہ کے امام ہیں، جو اپنے زمانے میں یکتا اور قدرو منزلت میں ارفع واشرف تھے۔ ہر فن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاد موجود ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی محققانہ تصانیف بہت زیادہ ہیں۔
حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے امام بیہقی اور امام الحرمین جوینی سے بھی اکتساب فیض کیا۔ آپ نے تصوف کے جو اصول اور صوفی کی جو خصلتیں بیان کی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ تصوف صرف ذکر اور اذکار کا نام ہی نہیں بلکہ انسانی فکر کی ایسی تبدیلی ہے جو انسان کے اوصاف واخلاق میں ایسا انقلاب لے آئے کہ انسان اچھے اخلاق کا بہترین نمونہ بن جائے۔ اور انسان ظاہر ہے اور باطن میں پاک صاف ہو جائے اور یہ طہارت انسان کی فکر کو خالص کردے۔ انسان خشیت الہیٰ کا مرقع بن جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے اور منفی خیالات و جذبات جیسے انتقام بخل و حرص اور لالچ انسان کے اندر سے نکل جائیں۔

تصوف میں حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”رسالہ قشیریہ“ ایک ایسا مختصر اور جامع رسالہ ہے، جس میں تصوف کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے، جس کی ابتدا میں تصوف کے عقائد بیان کیے گئے ہیں، اس کے بعد 83 صوفیہ کرام کے حالات قلم بند کیےگئے ہیں۔ امام قشیری کی وفات 1072 عیسوی میں نیشاپور میں ہوئی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے مرشد ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔