Shahadat Meaning and Types in Urdu | شہادت و گواہی کا معنی و مفہوم

0
  • سبق نمبر ۲۰:

درج ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

سوال۱: شہادت کا معنی و مفہوم بیان کریں:

جواب:گواہی کے لیے قرآن و سنت میں ”شہادت “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ شہادت کا مطلب کسی چیز یا معاملہ کو اپنے علم کے مطابق ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے واضح کرنا ہے، تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے۔

سوال۲:مرد و عورت کی گواہی کے بارے میں اسلامی احکام تحریر کریں۔

جواب:اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بناؤ) جن کو بھی تم گواہوں کے طور پر پسند رکتے ہو کہ اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے اور جب بھی گواہوں کو بلایا جائے (تو) وہ انکار نہ کریں۔ (سورۃ البقرۃ: 282)

سوال۳: گواہی کے دوران میں کن دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

جواب:گواہی میں دوباتوں کا دھیان رکھنا انتہائی ضروری ہے:
کسی وقوعہ کا بغور مشاہدہ کرکے اس کو دل و دماغ میں بٹھانا۔
معاملے کو قاضی اور جج کے سامنے پوری طرح دیانت داری سے پیش کرنا۔

سوال۴: عینی شہادت اور سمعی شہادت کی وضاحت کریں۔

جواب:گواہی دینا بعض اوقات آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرنا ہوتا ہے جس کو ”عینی شہادت“ کہتے ہیں۔ بعض اوقات گواہ کسی کو سن کر شہادت دیتا ہے اس کو ”سمعی شہادت“ کہتے ہیں اور جب وہ کسی شخص کو اپنی شہادت کی گواہی پر گواہ بنا دیتا ہے تب اس کو ”شہادت علی الشہادت“ یعنی گواہی پر گواہی دینا کہا جاتا ہے۔

سوال۵: سچی اور جھوٹی گواہی کے کوئی سے دو اثرات تحریر کریں۔

جواب:سچی گواہی سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے۔ بھائی چارے کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے رضائے الہیٰ کا حصول ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری جیسے احساسات فروغ پاتے ہیں، جب کہ جھوٹی گواہی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ دشمنیاں فروغ پاتی ہیں۔ معاشرے میں بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرہ بدامنی اور ظلم کا شکار ہوجاتا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ سچی گواہی اور سچے جذبات کو فروغ دیں۔ نہ جھوٹی گواہی دیں اور نہ ہی جھوٹی گواہی کی تحسین کریں۔

درج ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

سوال۱: قرآن و سنت کی روشنی میں گواہی کی اہمیت واضح کریں۔

جواب: گواہی کے لیے قرآن و سنت میں ”شہادت “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ شہادت کا مطلب کسی چیز یا معاملہ کو اپنے علم کے مطابق ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے واضح کرنا ہے، تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے۔

گواہی میں دوباتوں کا دھیان رکھنا انتہائی ضروری ہے:
کسی وقوعہ کا بغور مشاہدہ کرکے اس کو دل و دماغ میں بٹھانا۔
معاملے کو قاضی اور جج کے سامنے پوری طرح دیانت داری سے پیش کرنا۔

گواہی دینے والے کو گواہ کہتے ہیں، معاملات کی نوعیت کے پیش نظر گواہی کا حکم بھی بدلتا رہتا ہے۔ جب گواہی دینے والا کوئی اور نہ ہو اور معاملہ دوگواہوں کو معلوم ہو تو اس وقت گواہی دینا فرض ہو جاتا ہے اور جب گواہ کو گواہی دینے کے لیے بلایا جاتا ہے تو گواہی ہی چھپانا جائز نہیں ہوتا۔جب بہت سارے لوگ معاملے اور پیش آمدہ واقعے سے باخبر ہوں تو گواہی فرض نہیں رہتی بلکہ مستحب کے درجے میں آجاتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: جب بھی گواہوں کو بلایا جائے (تو) وہ انکار نہ کریں۔ (سورۃ البقرۃ: 282)

گواہی چھپانے کی ممانعت کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور گواہی کو مت چھاپؤ اور جس کسی نے اس (گواہی) کو چھپایا تو بے شک اس کا دل گناہ گارہےاور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو، اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔

اسلام میں شہادت امانت کی طرح ہے، جس طرح باقی امانتیں پوری کرنا لازم ہے، بالکل اسی طرح گواہی دینا بھی امانت ہے جو ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ گواہی دینا بعض اوقات آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرنا ہوتا ہے جس کو ”عینی شہادت“ کہتے ہیں۔ بعض اوقات گواہ کسی کو سن کر شہادت دیتا ہے اس کو ”سمعی شہادت“ کہتے ہیں اور جب وہ کسی شخص کو اپنی شہادت کی گواہی پر گواہ بنا دیتا ہے تب اس کو ”شہادت علی الشہادت“ یعنی گواہی پر گواہی دینا کہا جاتا ہے۔

گواہی دینا چوں کہ ایک اعلیٰ منصب و مرتبہ ہے، اس لیے گواہی دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ گواہ مسلمان عاقل،بالغ اور عادل ہو۔ اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بناؤ) جن کو بھی تم گواہوں کے طور پر پسند رکتے ہو کہ اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے اور جب بھی گواہوں کو بلایا جائے (تو) وہ انکار نہ کریں۔ (سورۃ البقرۃ: 282)
گواہی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر لوگوں کو محض دعوت کی وجہ سے ہی سب کچھ دے دیا جائے تو کتنے ہی لوگ خون اور مال کا دعویٰ کر ڈالیں گے، اس لیے دعوے دار کے ذمہ گواہ ہیں اور انکار کرنے ولاے کے ذمے قسم ہے۔ (صحیح بخاری: 4470)

رسول اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم کا ارشاد ہے کہ جھوٹی گواہی بت پوجنے کے برابر ہے۔ جھوٹی گواہی بت پرستی کے برابر قرار دی گئی۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کر دی گئی۔ تین بار یہ فرما کر حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ واصحابی وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ فرماتا ہے:
ترجمہ: بتوں کی ناپاکی سے بچتے رہو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ (سورۃ الحج: 30)