Fateh Makkah the Great Victory in Urdu | فتح مکہ کا واقعہ

0
  • سبق نمبر 9:

درج ذیل سوالات کے مختصر جواب تحریر کریں۔

سوال۱: فتح مکہ کا واقعہ کب پیش آیا؟

جواب: 8 ہجری 10 رمضان المبارک کو مسلمان تقریباً دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کو نواح میں جا پہنچے۔ مر الظھران کے مقام پر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ(دایاں حصہ)،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو میسرہ(بایاں حصہ) اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیدل لشکر کا امیر مقرر فرمایا۔

آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا پرچم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ آپ خاتم النبین رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے، آج اللہ تعالیٰ کعبہ مقدسہ کو خصوصی عظمت بخشے گا اور آج کعبہ کو نیا غلاف پہنا یا جائے گا۔ مختصر جھڑپ کے بعد اسلامی لشکر شہر مکہ میں داخل ہو گیا۔یوں اس طرح فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔

سوال ۲:فتح مکہ کے موقع پر کن تین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کو لشکر کا امیر مقرر کیا گیا؟

جواب: جب قریش مکہ نے جنگ کرنا قبول کیا تو آخر 8 ہجری 10 رمضان المبارک کو مسلمان تقریباً دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کے نواح میں جا پہنچے۔ مر الظھران کے مقام پر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ(دایاں حصہ)،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو میسرہ(بایاں حصہ) اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیدل لشکر کا امیر مقرر فرمایا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا پرچم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔

سوال ۳: فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم پر انتہائی عجز و انکسا ر کے جذبات غالب تھے۔آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اپنی اونٹنی قصوا پر سوار تھے اور آپ کا سرِ انور اونٹنی کی کوہان کو چھو رہا تھا، زبان پر سورۃ الفتح کی آیات جاری تھیں، آخر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا کہ آج میں تمہارے ساتھ اسی سلوک کا اعلان کرتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔

آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے تمام اہلِ مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ آج تم سب آزاد ہو ، آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ اہلِ مکہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے اس حسنِ سلوک اور عفو در گزر سے انتہائی متاثر ہوئے اور جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔

سوال ۴: فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا سعادت حاصل ہوئی؟

جواب: نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خانہ کعبہ کو تین سو ساتھ بتوں سے پاک فرمایا، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے ایک لکڑی پکڑی ہوئی تھی جس سے بتوں کو گراتے اجتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:
ترجمہ: “حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بت شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔”

سوال نمبر5: اس سبق میں ہمارے لئے کیا درس ہے؟

جواب: فتح مکہ کے نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم روزمرہ زندگی میں لوگوں کو کھلے دل سے معاف کرنے والے بن سکیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں۔

سوال۱: فتح مکہ کے اسباب بیان کریں۔

جواب: 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر عرب قبائل میں سے بن خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بنے، بنو بکر نے قریشِ مکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور یہ معاہدہ ہوا کہ فریقین دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے، لیکن اٹھارہ(18) ماہ بعد بنو بکر نے اچانک صلح کا معاہدہ توڑنتے ہوئے بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اور حرم کعبہ میں بھی بنو خزاعہ پر لڑائی مسلط کی۔ بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے مدد مانگی، نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے قریش مکہ کو تین شرائط پر صلح کا پیغام بھیجا کہ ےا تو بنو خزاعہ کے مقتولوں کی دیت ادا کریں یا معاہدے سے دست بردار ہو جائیں یا صلح ختم کر کے جنگ کا اعلان کریں۔قریشِ مکہ نے جنگ کرنا قبول کیا۔

8 ہجری 10 رمضان المبارک کو مسلمان تقریباً دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کو نواح میں جا پہنچے۔ مر الظھران کے مقام پر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ(دایاں حصہ)،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو میسرہ(بایاں حصہ) اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیدل لشکر کا امیر مقرر فرمایا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا پرچم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ آپ خاتم النبین رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے، آج اللہ تعالیٰ کعبہ مقدسہ کو خصوصی عظمت بخشے گا اور آج کعبہ کو نیا غلاف پہنا یا جائے گا۔ مختصر جھڑپ کے بعد اسلامی لشکر شہر مکہ میں داخل ہو گیا۔

قریشِ مکہ میں ابو سفیان، بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام جیسے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے دس ہزار کے لشکر کی موجودگی کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ شخص پناہ طلب کرے اسے پناہ دی جائے، عورتوں اور بچوں پر تلوار نہ اٹھائی جائے، جو شخص ابو سفیان کے گھر پناہ لے، اس کو بھی کچھ نہ کہا جایئ، جو ہتھیار ڈال دیں یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیں، ان سب کے لئے امان ہے۔فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرمخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا سرِ انور اونٹنی کو کوہان کو چھو رہا تھا، زبان پر سورۃ الفتح کی آیات جاری تھیں، آخر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے فرمایا کہ آج میں تمہارے ساتھ اسی سلوک کا اعلان کرتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے تمام اہلِ مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ آج تم سب آزاد ہو ، آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔

اہلِ مکہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے اس حسنِ سلوک اور عفو در گزر سے انتہائی متاثر ہوئے اور جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کا اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کر دینا عفو درگزر کی شان دار مثال ہے۔ پھر نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خانہ کعبہ کو تین سو ساتھ بتوں سے پاک فرمایا، آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے ایک لکڑی پکڑی ہوئی تھی جس سے بتوں کو گراتے اجتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:

ترجمہ: “حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بت شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔”نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم نے بیت اللہ کے اندر دو رکعت نماز پڑھی اور باہر نکل کر خانہ کعبہ کی چابی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کر سپرد فرمائی، حجر اسود کو بوسہ دیا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحابہ وسلم کے دستِ مبارک پر مردوں اور عورتوں کی بھاری تعداد نے اسلام قبول کیا۔فتح مکہ کے نتیجے میں قریش کے تمام قبائل نے قبولِ اسلام میں پہل کی، حتیٰ کہ صرف دس روز میں دو ہزار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، دین اسلام کو غلبہ حاصل ہوا،اسلام اور اہلِ اسلام کو عظمت و شان حاصل ہوئی، دشمنانِ اسلام کی سازشیں دم توڑ گئیں۔