سبق نمبر۱: قرآن کا تعارف

0

سوال1: قرآن مجید کا مختصر تعارف قلم بند کریں۔

جواب: لفظ قرآن “قراءۃ” سے ہے جس کے معنیٰ پڑھنے کے ہیں ۔ قرآن مجید واحد کتاب ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے، اس لئے اسے قرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر نازل فرمائی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اللہ کے مقرب فرشتے جبرائیلؑ کے ذریعے سے نازل ہوا۔ قرآن مجیدآخری کتاب ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تقریباً تئیس (23)سال کے عرصے میں حالات و واقعات اور ضرورت کے مطابق نازل فرمایا۔قرآن مجید سابقہ کتب سماویہ کی تصدیق والی کتاب ہے اور ان کی تعلیمات کی محافظ اور نگہبان بھی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پچھلی امتوں کے لئے بھی انبیاء مبعوث فرمائے تھے اور ان میں سے بعض پر اپنی کتابیں بھی نازل فرمائی تھی۔ لیکن ان انبیاء کی تعلیمات اور ان پر نازل شدہ کتابیں اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور تمہاری طرف ہم نے یہ کتاب نازل کی ہے۔ یہ حق لے کر آئی ہے۔ اس سے پہلے جو آسمانی کتابیں آئیں ان کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ و نگہبان ہے۔ (سورۃ المائدہ:48)

سوال2: قرآنِ مجید ایک عالم گیر کتاب ہے۔ وضاحت کریں۔

جواب: قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری عالمگیر کتاب ہے، جس طرح نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کی رسالت تمام جہانوں کے لئے ہے، اسی طرح آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن مجید کسی خاص قوم یا وقت کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔

سوال3: قرآنِ مجید کے قیامت تک کے لئےمحفوظ ہونے کی وجہ بیان کریں۔

جواب: قرآن مجید کی حقانیت کی یہ دلیل ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک حرف چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی محفوظ ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ کی طرح اس میں بیان کی گئی معلومات بھی قرآن مجید کے اعجاز کی دلیل ہیں۔ قرآنِ مجید دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح نازل ہوئی تھی۔ قرآنِ مجید قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمعہ: ”بے شک ہم ہی نے (اس) ذکر (قران) کو نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی ضرورت حفاظت فرمانے والے ہیں۔“

سوال4: قرآنِ مجید کاا عجاز تحریر کریں۔

جواب: یہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ یہ قرآنِ مجید کا معجزہ ہے کہ اسے پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اسے ہر لمحہ نئی لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔

سوال5: عہدِ رسالت میں تدوینِ قرآنِ مجید ی وضاحت کریں۔

جواب:نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہی اکثر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کو قرآنِ مجید زبانی یاد تھا۔ نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم قرآنِ مجید کے نزول کے فوراً بعد قرآنی آیات کو لکھوانے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں مکمل قرآنِ مجید لکھا جا چکا تھا۔ عہدِ رسالت ہی میں عموماً پتھر کی ان سلوں، چمڑے، کھجور کی چھال اور اونٹ کے شانے کی ایسی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا جو خاص اسی مقصد کے لئے تیار کی جاتی تھیں۔یوں قرآنِ مجید عہدِ نبوی ہی میں مکمل حفظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر لکھا ہوا موجود تھا۔

تفصیلی سوال

عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں جمع و تدوین قرآنِ مجید کے احوال بیان کریں۔

جواب: نبی اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی زندگی میں اگرچہ قرآن مجید مکمل کتابی شکل میں موجود تھا، تا ہم حکومتی سر پرستی میں قرآنِ مجید کی نشر و اشاعت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ قرآنِ مجید کو سرکاری سر پرستی میں جمع کرنے کی ضرورت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اس وقت محسوس ہوئی جب جنگِ یمامہ میں قرآنِ مجید کے سینکڑوں حفاظِ کرام شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے قرآنِ مجید زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس عظیم کام کی تکمیل کے لئے منتخب کیا۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہدِ رسالت میں وحی کی کتابت کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے مسلسل اور انتہائی محنت سے قرآن مجید کو ایک مصحف کی صورت میں جمع کیا۔قرآن مجید کا یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجود رہا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتقل ہوا اور حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تحویل میں آگیا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب مختلف قراءتوں اور لہجوں میں قرآنِ مجید کی تلاوت پر اختلاف پیدا ہوا تو انہوں نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسخے کی مختلف نقلیں تیار کر کے مختلف صوبوں کو بھجوا دیں اور سب مسلمانوں کو ایک قراءت پر متحد کر دیا۔