Essay on Beghar Bache in Urdu

0

بے گھر بچوں پر ایک مضمون

  • اسٹریٹ چلڈرن (Street children) ایک ایسا لفظ ہے جو گلیوں اور سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو کنبہ کی دیکھ ریکھ اور ان کی سرپرستی سے محروم رہتے ہیں۔
  • سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کی عمر تقریباً 7 سال سے 17 سال کے اندر ہوتی ہے۔ یہ بچے گھروں کے باہر یا مارکٹ کے باہر فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ انہیں بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑی سی نیند سونے کے لئے انہیں فٹ پاتھ پر بری لت والے انسانوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو شراب اور ڈرگس جیسی چیزوں میں مبتلا رہتے ہیں۔
  • آج کے اس دور میں بے گھر بچوں کا مسئلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لئے سب سے خطرے کی بات تب ہوتی ہے جب وہ ایک لڑکی ہوتی ہے۔ ویسے تو سبھی فٹ پاتھ کے بچے پریشانی کا سامنا کرتے ہیں لیکن ایک لڑکی کی زندگی واقعی بہت مشکلوں والی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ جنگلی بھیڑیئے بن کر اپنی حوس کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی فٹ پاتھ کی بچی کو اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔ پھر ان درندوں کو یہ نہیں سمجھ آتا کہ وہ بچی کتنی کم عمر کی ہے۔
  • اس دور ترقی میں یہ عام ہوگیا ہے کہ کوئی بھی فٹ پاتھ کی بچی ہو یا پھر کوئی غریب بچی ہو حوس سے بھرے حیوان ان کی عصمت کو لوٹ کر ان کو جان سے مار کر کھلے عام معاشرے میں گھومتے رہتے ہیں اور ہماری سرکار بھی انہیں کوئی سخت سزا نہیں دے رہی۔
  • گلیوں میں رہنے والے بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ وہ بھیک مانگ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور فٹ پاتھ پر سو کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ بچوں کے باہر گاؤں میں گھر ہوتے ہیں لیکن وہ کمبے والوں کے بھیجنے سے شہر آجاتے ہیں اور دن بھر بھیک مانگ کر سارا پیسا اپنے کمبے والوں کو دے دیتے ہیں اور خود سڑکوں پر رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور کچھ ماں باپ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی سڑکوں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ خود گناہ کرکے اپنے بچوں کو سزا جھیلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ان معصوم بچوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ دنیا میں آنا ہی ان کا قصور ہے اور دنیا میں آکر ٹھوکر کھانا ان کی قسمت ہے۔
  • ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ غریب اور یتیم بچے پائے جاتے ہیں۔ ایک ارب آبادی والا ہندوستان سب سے بڑا ملک ہے جس میں بچوں کی آبادی 40 کروڑ کے قریب ہے۔ جس میں غریب اور لاوارث بچوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ ہندوستان میں آئی’ ایل’ او’ کے مطابق 12.9 ملین بچے مزدور بن کر کام میں لگے ہیں جن کی عمر تقریباً 7 سے 17 سال کے آس پاس ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ اپنا کام کم پیسوں میں کروانے کے لیے سڑک اور فٹ پاتھ کے بچوں کو زبردستی کام کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں اور کبھی بچے خود بھوک سے مجبور ہو کر ایسے کاموں میں جٹ جاتے ہیں جو ان کی عمر کے مطابق ہے ہی نہیں۔ اس وجہ سے نہ تو وہ بچے تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنا بچپن جی پاتے ہیں۔
  • گلیوں میں رہنے والے بچوں سے اگر واقعی ہم سب کو ہمدردی ہے تو سچ میں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم سب کو اپنے فالتو خرچوں پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ ان بچے ہوئے پیسوں سے ان کی مدد ہو سکے۔ اور ہمارے ملک میں سخت قانون بنانا چاہیے کہ کوئی بھی اپنا بچہ لاوارث چھوڑ کر نہ جا سکے۔ اس کے بعد ہر جگہ یتیم خانے کا بندوبست کروانا چاہیے جس میں بچوں کی تعلیم کا بھی سامان فراہم ہو۔ اور اس کے علاوہ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کی چیزیں دستیاب ہونی چاہیے۔
  • یہ ذمہ داری ہر اس شخص کی ہے جس کے پاس دولت ہے۔ اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ یتیم خانے میں ادا کرے۔ تب جاکر ہماری گلیوں اور سڑکوں پر لاوارث بچوں کی تعداد کم ہو پائے گی۔