Essay On CPEC In Urdu

0

China Pakistan economic corridor “

پاک چین اقتصادی راہداری(CPEC): ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال  مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر  طویل ہے۔یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گيا ہے۔راہداری چین کی اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔

پاکستان کی قدرتی طورملاجغرافیائی محل وقوع( اسٹریٹجک پوزیشن )اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس ،زراعت، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتاہے۔اس قدرتی محل وقوع کی اہمیت اورافادیت کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے مل کر’’پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ‘‘بنانے کافیصلہ کیاہے جوکاشغر سے شروع ہو کر گلگت۔ بلتستان اور خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے گزرے گا۔واضح رہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے۔یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔چین یومیہ60لاکھ بیرل تیل بیرون ملک سے درآمدکرتاہے جس کا کل سفر12000کلومیٹر بنتاہے جبکہ یہی سفرسی پیک کی تکیمل کے بعدسمٹ کرمحض3000کلومیٹر رہ جائے گا جس کے باعث چین کوتیل کی سالانہ تیل کی درآمدت پر20ارب ڈالربچت ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مدمیں5 ارب ڈالریعنی پانچ کھرب یاپانچ سو ارب روپے سالانہ ملیں گے۔ 

ان منصوبوں کے متعلقہ علاقوں میں لامحالہ معاشی اوراقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ان علاقوں میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کا سنگِ میل ثابت ہوں گی۔ روزگار کے بے شمار مواقع میسرہوں گے۔غربت کے خاتمے کے لئے یہ مواقع لاکھوں خاندانوں کو غربت کی بیڑیوں سے آزاد کر سکیں گے۔ اگر تمام منصوبے پروگرام کے مطابق مکمل ہو گئے تو زیادہ تر علاقوں میں کاروبار، صنعت اور تجارت کا روایتی انداز اور طرز ہمیشہ کے لئے بدل جائے گا۔

پاکستان کے لئے یہ ایک انتہائی نادروسنہری موقع ہے کہ اس منصوبے سے اپنے بہترین معاشی مفادات اورمتناسب علاقائی ترقی کے مطابق اس سیفائدہ اٹھائے۔ بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان براہ راست اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ جبکہ دوسرے صوبے روڈ نیٹ ورک کے ذریعے منسلک ہوں گے۔منصوبوں کی تیاری، ان میں مقامی صنعتوں کی شمو لیت، مقامی لیبر اور افرادی قوت کی کھپت سمیت بہت سے حساس اور دور رس اہمیت کے معاملات اس پرو جیکٹ کے فوائدکے حصول میں اہم کردار کریں گے۔

مختصر یہ کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان دنیا میں ایک مستحکم اقتصادی قوت کاحامل ملک بن کے ابھرے گا۔ اسی وجہ سے پاکستان مخالف طاقتوں اور گروہوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں جوکہ پاکستان کو پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتیں ۔

واضح رہے کہ مختلف سیاسی اور قوم پرست جماعتیں سی پیک کے خلاف آوازیں بلند کررہی ہیں جس کیلئے وفاق وعسکری قیادت کو چاہیے کہ انہیں آن بورڈلیکر ان کے جائزمطالبات کوپوراکریں۔ مگرتمام سیاسی وقوم پرست جماعتوں کو چاہیے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفادات ،سالمیت اورخوشحالی کیلئے اس عظیم منصوبے کے خلاف صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہرزہ سرائی سے گریز کریں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی وقوم پرست جماعتوں نے ماضی میں بھی عوام کے مفادات کیلئے بنائے جانے والے بڑے منصوبوں کوسیاست کی نذرکرکے پاکستان کی ترقی میں رکاؤٹ ڈالی اگر اس بارایساکیا گیاتوانہیں سخت ترین عوامی ردعمل ومذاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی ترقی ،سالمیت اورخوشحالی کے ضامن سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے قوم کا ہرفرد خواہ اس کی وابستگی کسی بھی سیاسی،مذہبی جماعت سے ہو یا کسی بھی علاقے وزبان وقوم سے ہو،کو چاہیے کہ مل کر ملک کی ترقی میں حائل رکاؤٹوں کومشترکہ جدوجہدکرکے اس عظیم ترین منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچا کرپاکستان کوترقی کے ناختم ہونے والے سفرپرگامزن کریں۔

20 اپریل 2015ء کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔ راہداری کے بڑے منصوبے جو دوطرفہ تعاون سے ہیں، ان منصوبوں میں سے بہت سے منظور کر لیے گئے ہیں اور کچھ ابھی تک مطالعات کی وجہ سے روکے ہوئے ہیں جنکو بہت ہی جلد تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔