Republic Day Essay In Urdu

0

یوم جمہوریت کی تقریب

آزادی کے لگ بھگ تین سال بعد ہندوستانی رہنماؤں اور ماہرین قانون نے ملک کے لیے اپنا نیا آئین تیار کیا۔یہ آئین 26 جنوری 1950 کے دن عمل میں آیا اور بھارت ایک خود مختیار جمہوریت کی حیثیت سے وجود میں آیا۔اس لئے اس دن کو یوم جمہوریت کا دن کہا جاتا ہے۔ہر سال اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتانایا جاتا ہے۔اس دن بھارت کے عوام وطن کی آزادی کی آزادی و سلامتی کی حفاظت کی قسم لیتے ہیں۔شہر اور بڑے قصبے میں جلوس نکالا جاتا ہے۔جابجا جلسے منعقد کئے جاتے ہیں۔آزادی کے پروانوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔محبان وطن کی قربانیوں کی داد دی جاتی ہے۔ترنگا جھنڈا لہرایا جاتا ہے اور قومی گیت گایا جاتا ہے۔

دہلی میں یوم جمہوریت خاص دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔انڈیا گیٹ پر لاکھوں مرد عورتیں بچے بوڑھے جمع ہوتے ہیں۔عمارتوں کو پھولوں اور جھنڈیوں کے ساتھ سجایا جاتا ہے۔صدر ہندوستان اپنے محافظ دستے کے ساتھ آراستہ بگھی میں سوار ہوکر سلامی کے لئے معینہ مقام پر تشریف لاتے ہیں اور ایک بڑے خوبصورت چھتر کے نیچے سنہری مسند پر رونق افروز پر رونق افروز نق افروز ہوتے ہیں۔ہوائی، بری اور بحری افواج کے چیف آف سٹاف ان کے استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں۔انہیں آتے ہیں 31 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔فوجی بینڈ قومی گیت پیش کرتا ہے۔ہوائی جہازوں کا ایک دستہ فضا میں اڑتا ہوا طرح طرح کے کرتب دکھاتا ہے۔ فوج کے جوان مارچ کرتے ہوئے گذرتے ہیں،مختلف سکولوں کے طلبہ دلکش رنگین وردیوں میں ملبوس ہو کرجلوس کی شکل میں چلتے ہیں۔ہزاروں تماشائی سڑک کے دونوں طرف نظارہ دیکھنے کے لئے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ان کے چہروں پر راحت و مسرت نمایاں ہوتی ہے۔یہ جلوس مقررہ راستے پر بڑھتا ہوا کناٹ پلیس میں سے گزرتا ہے۔

جوں جوں جلوس آگے بڑھتا ہے لوگوں کا ہجوم زیادہ ہوتا جاتا ہے۔بےحد بھیڑ-بھاڑ کے سبب کئی تماشائی مکانوں اور دکانوں کی کھڑکیوں، چھتوں پر جمع ہوجاتے ہیں۔کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی۔کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ایسی ریل پیل ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔اگر خدانخواستہ پولیس کا انتظام درہم برہم ہوجائے یا کسی اور وجہ سے بھگدڑ مچ جائے تو بیسوں عورتیں، بچے پاؤں تلے روندے جائیں اور جان و مال کے نقصان کا خطرہ پیدا ہو جائے۔

یوم جمہوریت کا بھاری جلوس بڑھتا ہوا بلآخر لال قلعہ سے ملحق وسیع میدان میں جاپہنچتا ہے۔فوجی دستے لال قلعے کے اندر چلے جاتے ہیں۔جبکہ جلوس چاندنی چوک کا رخ کرتا ہے۔ٹاون ہال تک پہنچنے پر اہل جلوس منتشر ہو جاتے ہیں اور اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔

رات کو لوگ اپنے مکانوں اور دکانوں پر چراغاں کرتے ہیں اور دیوالی کا نظارہ تازہ کرتے ہیں۔راشٹر پتی بھون پر خاص آرائش اور روشنی ہوتی ہے۔یہ دلربا منظر دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ راشٹرپتی بھون کا طواف کرتے ہیںھون کا طواف کرتے ہیں۔ٹاون ہال، پارلیمنٹ ہاؤس اور سنٹرل سیکریٹریٹ کی عمارات بھی خوب آراستہ ہوتی ہیں۔

یہ دن نہ صرف محبان وطن کی قربانیوں کی یاد تااد تازہ کرتا ہے بلکہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے آمادہ کرتا ہے مغرب اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمارے اندر جوش بھرتا ہے۔ہمارے جذبہ ایثار کو تقویت دیتا ہے، جمہوریت اور مساوات کے تصور کو پختہ کرتا ہے۔

اس دن کی اہمیت روز روشن کی مانند عیاں ہے۔یہ دن قوم کی آزادی، یکجہتی اور سلامتی میں اعتقاد کی علامت ہے۔اس کے ساتھ ایک تارھ ایک تاریخ مربوط ہے جس پر ہندوستان کو فخر ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں 26 جنوری کا دن ہمیشہ یاد رہے گا۔