My First Day At School Essay Secondary School

0

جب میں نے عمر کے چھٹے سال میں قدم رکھا تو میرے اباجان ایک دن میری امی جان سے کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب بیٹے کو سکول داخل کروا دینا چاہیے۔امی جان نے بھی آباجان کے اس خیال کی بھرپور حمایت کی۔میں یہ گفتگو سن کر دل ہی دل میں گھبرا رہا تھا کہ اب یہ ایک نئی مصیبت کا آغاز ہونے والا ہے۔دراصل میری ایک گھبراہٹ پڑھائی کی وجہ سے نہ تھی۔

کیونکہ گھر میں سب بڑے بہن بھائی سکول جاتے تھے اور ابھی میں چار سال کا ہی تھا کہ میری باجی نے مجھے اردو اور انگلش قاعدہ پڑھانا شروع کر دیا تھا اور میں اچھی خاصی اردو پڑھ لیتا۔انگریزی زبان کے بھی بہت سے الفاظ ہیں جو اور معنوں کے ساتھ مجھے ازبر تھے اور مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔میری گھبراہٹ کی اصل وجہ گھر اور امی جان سے مسلسل 5 گھنٹے دور رہنے کا تصور تھا۔

سکول روانگی

دوسرے دن صبح صبح امی جان نے مجھے بھی باقی بہن بھائیوں کے ساتھ تیار کرکے جلدی جلدی ناشتہ کروایا اور میں اپنے ابا جان کی انگلی پکڑ کر گھر سے نکل گیا۔اس وقت دل چاہتا تھا کہ زور زور سے رونا پیٹنا شروع کردوں مگر ابا جان کے خوف سے دبکا چلا جا رہا تھا۔آخری لمحہ تک پلٹ پلٹ کے گھر کی درودیوار کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا حتیٰ کہ ایک گلی کی نکڑ مڑ جانے سے یہ حسین منظر بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ چلنے کے بعد ہم ایک بہت کشادہ گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔

گیٹ پر موجود ایک بوڑھے سے آدمی کے ساتھ اباجان نے چند ایک باتیں کیں اور ہم گیٹ کے اندر داخل ہوگئے۔ہمارے سامنے ایک گھاس کا میدان تھا، جس میں بے شمار بچے قطاروں میں کھڑے تھے اور ان کے سامنے دو بچے کھڑے بڑی اچھی آواز میں قومی ترانہ پڑھتے تھے۔ابا جان میرا بازو پکڑے میدان سے پارے بلڈنگ کی طرف بڑھ گئے اور ہم ایک کمرے میں داخل ہوگئے۔جہاں ایک میز کی دوسری طرف ایک بہت شفیق صورت بزرگ بیٹھے تھے۔سامنے خالی دو تین کرسیوں میں سے ایک کرسی پر اباجان بیٹھ گئے اور میں پاس ہی مؤرب کھڑا ہوگیا۔

داخلہ

ابا جان سے چند باتیں کرنے کے بعد انہوں نے ایک فارم دیا، جس پر اباجان کچھ لکھنے لگے۔اس دوران میں وہ بزرگ مجھ سے مخاطب ہوئے۔میرا نام پوچھا، بہن بھائیوں کی تعداد پوچھی، ابو کا نام پوچھا اور پھر محلے کا نام پوچھا اور مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔اتنی دیر میں اباجان لکھنے سے فارغ ہو چکے تھے۔اباجان نے دورانِ گفتگو جب دو تین دفعہ ان کو ماسٹر صاحب کہہ کر مخاطب کیا تو مجھے علم ہوا کہ یہ بزرگ ماسٹر صاحب ہیں۔ماسٹر صاحب نے میز پر رکھے ایک دبئی کے بٹن کو دبایا تو ایک گھنٹی بج اٹھی،ساتھ ہی ایک شخص کمرے میں داخل ہو کر مؤدب کھڑا ہوگیا۔ماسٹر صاحب نے ان سے کہا کہ انہیں کلاس میں لیجاؤ اور استاد جی کو بتانا کہ یہ بچہ نیا داخل ہوا ہے، اسے اپنی کلاس میں بٹھالیں۔

کمرہ امتحان کو روانگی

اباجان نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا”ہاں بیٹا! اب ان کے ساتھ جاؤ اور اپنی کلاس میں بیٹھ جاؤ، چھٹی کے وقت میں آ کر آپ کو لے جاؤں گا.”میں اب تک تو ضبط کیے کھڑا تھا لیکن ابا جان کے اس جملے کے ساتھ ہی میرے صبر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں نے رونا شروع کردیا۔ ماسڑ صاحب نے مجھے اپنے پاس بلایا اور تھپکی دیتے ہوئے کہا بیٹا آپ رو کیوں رہے ہیں، انکے ساتھ جائیں، اپنی کلاس میں بیٹھیں، وہاں اور بھی بہت سے اچھے بچے ہیں، جو تمہارے دوست بن جائیں گے اور آپ سب مل کر پڑھیں گے۔جاؤ شاباش، رونا بری بات ہے۔

ماسٹر صاحب کی اس بات پر میں نے اونچی آواز میں رونا تو بند کر دیا مگر دل مسلسل روئے جا رہا تھا۔پھر میں اس آدمی کے ساتھ چلا گیا، وہ آدمی مجھے ایک اور کمرے کے دروازے پر کھڑا کرکے کہنے لگا”ماسٹر صاحب یہ نیا بچہ داخل ہوا ہے۔”میں سیدھا ان کے پاس گیا۔ انہوں نے میرا نام پوچھا اور کلاس میں موجود دوسرے بچوں کو مخاطب کر کے کہا”بچو!  یہ دیکھو! آپ کا ایک نیا دوست آیا ہے۔

یہ بھی آپ کے ساتھ پڑھے گا.”اسکے بعد انہوں نے ایک بچے کو مخاطب کیا. “عرفان بیٹا! اسے آپ اپنے پاس بٹھا لیں، یہ آپ کے ساتھ بیٹھا کرے گا.”میں نے دیکھا کہ ایک تقریباً میرے جتنا ہی بچہ ایک ڈیسٹک سے اٹھ کر آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے بینچ پر لے گیا۔ہربینچ پر دو دو بچے بیٹھے تھے جن کے ساتھ ایک ڈیسک تھا ۔میں بھی وہاں بیٹھ گیا۔

کلاس میں پہلا دن

اب ماسٹر صاحب نے سب بچوں کی حاضری لگائی۔باری باری وہ سب کا نام بولتے جاتے تھے اور ہر بچہ “حاضر جناب” کہتا تھا۔سب سے آخر میں انہوں نے میرا نام بھی لیا، میں نے بھی باقی تمام بچوں کی طرح “حاضر جناب” کہہ دیا. اس کے بعد ماسٹر صاحب نے بلیک بورڈ پر ایک دن کا سبق دیا اور سب بچوں کو اسے دیکھ کر لکھنے کو کہا۔  اسی دوران باقی بچے دیکھ کر میرا جی بھی کافی حد تک بدل چکا تھا اور مجھے یہ ماحول قدرے اچھا لگنے لگا تھا۔میں نے بھی کاپی نکال کر وہ سبق لکھنا شروع کردیا۔یہ میرے لئے کوئی مشکل نہ تھا کیونکہ گھر میں میں یہ سب کچھ پہلے پڑھ چکا تھا۔

پھر سب بچوں نے اپنا کام چیک کروانا شروع کر دیا۔اپنی باری آنے پر میں بھی اٹھ کر گیا اور اپنی کاپی ماسٹر صاحب کو دکھائی۔وہ میری لکھائی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھے شاباش دی، جس کی وجہ سے میرے اندر بہت حوصلہ پیدا ہوا۔میں واپس آکر زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔اس کے بعد ماسٹر صاحب نے ہمیں دو اور تین کا پہاڑا یاد کرنے کو کہا اور اسے بلیک بورڈ پر چاک سے لکھ دیا۔مجھے یہ دونوں پہاڑے پہلے ہی سے یاد تھے لیکن پھر بھی باقی بچوں کے ساتھ میں نے یہ اپنی کاپی پر نقل کئے اور یاد کرنا شروع کردیے۔

اتنے میں سکول کی گھنٹی بجنے لگی اور تمام بچے اپنے بستے سمیٹ کر ڈیسکوں میں رکھنے لگے۔یہ تفریح کی گھنٹی تھی۔میں بھی تمام بچوں کے ساتھ باہر میدان میں آگیا۔یہاں تمام بچے کھیل کود اور بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے۔ان کے ساتھ میں بھی شامل ہوگیا۔کئی بچوں سے میرا تعارف ہوا۔انہوں نے مجھے اپنے نام بتائے، میں نے انکو اپنا نام بتایا۔ہم آدھا گھنٹہ کھیلتے رہے۔اس دوران میں بہت سے بچے میرے دوست بن چکے تھے۔

تفریح کا پیریڈ ختم ہونے پر ہم سب بچے دوبارہ اپنی اپنی کلاسوں میں واپس آگئے۔کلاس میں آنے پر دوبارہ حاضری ہوئی اور پھر پڑھائی شروع ہو گئی۔ماسٹر صاحب نے ہر بچے کو باری باری کھڑے ہوکر انگلش کا قاعدہ پڑھنے کو کہا۔اپنی باری آنے پر میں نے بھی سبق پڑھ کر سنایا۔پھر ہم سب اپنی کاپیوں پر انگلش کا سبق لکھنے میں مصروف ہوگئے۔

چھٹی

اب میرے دل سے سکول کا خواب مکمل طور پر اتر چکا تھا بلکہ مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔اتنے میں سکول کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی تھی اور ہر طرف چھٹی کا شور مچ گیا اور میں نے بھی اپنا بستہ سمیٹا اور اپنے دوستوں کو کل دوبارہ ملنے کا کہہ کر باہر کی طرف دوڑا۔گیٹ پر میرے اباجان کھڑے تھے، میں دوڑ کر ان کے پاس پہنچا۔انہوں نے مجھے مجھ سے سکول کے بارے میں پوچھا۔

میں نے کہا”اباجان! سکول میں تو بہت مزہ آیا ہے میں کل بھی ضرور سکول آوں گا.”ابا جان میرے اس جملے پر مسکرانے لگے اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچنےپر منہ دھو کر میں نے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر دوپہر کا کھانا کھایا اور اس کے بعد امی جان کو اپنے ماسٹر صاحب اور نئے دوستوں کے بارے میں باتیں بتانے لگا، جو سب بڑے شوق سے سن رہے تھے۔

شوق

دوسرے دن صبح میں خودبخود سب سے پہلے تیار کھڑا تھا اور اپنے ابا جان سے کہہ رہا تھا”آئیں، مجھے اسکول چھوڑ آئیں۔”سب بڑی خوشی سے مجھے دیکھ رہے تھے اور ان سب سے زیادہ میں خوش تھا کہ میں سکول جا رہا ہوں.