Essay On Corruption In Urdu

0
Essay On Corruption In Urdu 1

2nd Essay On Corruption In Urdu

آج میں بدعنوانی کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔ سیاسی بدعنوانی ناجائز ذاتی فوائد کے لیے حکومت کے اہلکاروں کی طاقت کے غلط استعمال کرنے کو کہتے ہیں۔ کرپشن کا لفظ خراب، ٹوٹے ہوئے، عیبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مشہور فلسفی ارسطو اور بعد میں سیسیور نے اسے بدعنوانی کے معنوں میں استعمال کیا۔ یعنی رشوت لینا، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہیں ہے۔

کرپشن یعنی بدعنوانی کا لفظ آج کل سیاست میں بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے خصوصی طور پر پاکستانی سیاست میں۔ بد عنوانی کے مختلف پیمانے ہیں۔ نچلی سطح سے لے کر حکومتی بلکہ بین الاقوامی سطح تک اس بد عنوانی کی جڑیں پھیل چکی ہیں۔ بین الاقوامی معاملات میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں۔

چھوٹی موٹی بد عنوانیوں میں نوکری پیشہ افراد اپنے افسران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے موقع بے موقع انھیں تحائف پیش کرتے رہتے ہیں۔ یا پھر ذاتی تعلقات سے کام لے کر اپنے چھوٹے چھوٹے کام نکلوا لیتے ہیں جسے ہم سفارش کا نام دے سکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بد عنوانی حکومتی عہدے داروں تک جا پہنچتی ہے جس میں ملک کی امانت میں خیانت کرنا، ملک و قوم کا مال اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے لٹانا، بڑے بڑے ٹھیکے منظور کروانا، مختلف اہم اور ذمّہ داری والے کاموں کے لائسنس حاصل کرنا شامل ہیں۔ ایسی اشیاء کے لائسنس حاصل کرنا جس کی مانگ زیادہ اور ترسیل میں کمی ہو، جس کی ذخیرہ اندوزی کر کے منہ مانگے پیسے وصول ہو سکتے ہوں۔

ہمارے معاشرے میں یہ سب اب عام معمول کے طور چل رہا ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر یا حکومتی شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے یا مہیّا کرنے پر بھاری رشوت کا لین دین کرنا، یہ سب بڑے پیمانے کی بد عنوانیوں میں شامل ہے جس کا فوری یا آہستگی سے مگر پورے ملک کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حکومتی محکموں میں پبلک کے ٹیکس کا پیسہ جو مختلف ترقّیاتی، فلاحی اور اصلاحی کاموں کے لئے ملنے والے فنڈ کو اپنی جیب گرم کرنے میں لگادیں تو یہ بلند درجے کی بدعنوانی ہے۔

ہر نئی نسل بھلائی پر ایمان اور معصوم جذبے لے کر پاکیزہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ معاشرہ جس میں وزیر اعظم سے قاصد تک اور مل کے مالک سے دیہاڑی دار معاون تک تقریباً ہر کوئی تر بہ تر ہے اور نچڑ رہا ہے، یہاں نئی نسل کی رہنمائی کے لئے شاید کوئی موجود نہیں۔ انھیں مستقبل کی تعمیر کے لئے بڑی توجہ سے اپنے رستے بنانا ہونگے۔

اچھے معاشروں کا مطالعہ اور ذہانت سے پوچھے جانے والے سوال وہ اوزار ہیں جو راستہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ جمہوریت نئی نسل کو اپنا رول ادا کرنے کے لئے میدان مہیا کر سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے نئی نسلیں سائنس اور تخلیق کی دنیا کے ساتھ جینے کا فیصلہ کریں گی جو ایسا واحد راستہ ہے جو کرپشن سے آزاد ہے۔

بدعنوانی سے نہ صرف ایک نا اہل کو جگہ ملتی ہے بلکہ ایک اہل کی اہلیت کا اسے صلہ نہیں ملتا جس سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

اقبال کے شعر کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں؀

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے