Advertisement
Advertisement

تبصرہ میں کسی کتاب کے اہم یا غیر اہم ہونے سے متعلق ناقد یا مبصر کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ عموماً ان خیالات کی شائع شدہ شکل ہی کو تبصرہ تصور کیا جا تا ہے۔ تبصرہ باقاعدہ تنقیدی مضمون نہیں ہوتا مگر تنقیدی آرا کے بغیر اسے مکمل بھی نہیں سمجھا جاتا۔

Advertisement

تبصرے کا مقصد شائع ہونے والی کتاب اور اس کے مصنف کا اختصار کے ساتھ فوری تعارف ہوتا ہے تا کہ قارئین کو کتاب کے مطالعے کی ترغیب ملے۔مصنف اور تصنیف دونوں کا تعارف ،عصری ادب سے ان کا رشتہ، تصنیف کی ظاہری بناوٹ ، اس کی قیمت اور مقام اشاعت وغیرہ کا ذکر تبصرہ نگاری کے لوازم ہیں۔

اثر لکھنوی، وحیدالدین سلیم کے تبصرے حالی، مرزا رسوا، مولوی عبدالحق ، چکیست ، عبدالعلیم شرر ، مہدی افادی ،شبلی نعمانی ، عبدالماجد دریا بادی کے تنقیدی تبصرے دیانت داری اور ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعد کے لکھنے والوں میں فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض ، مجنوں گورکھپوری ، سردار جعفری ، عزیز احمد، آل احمد سرور اور ماہر القادری وغیرہ کے تبصرے مخصوص ادبی را قانات کے تحت لکھے گئے ہیں۔

Advertisement

عصری ادب کے مبصرین میں اسلوب احمد انصاری ، شمس الرحمن فاروقی ، ظ۔ انصاری ،شمیم حنفی ، وزیر آغا ، کلام حیدری ، محمد حسن ، قمر رئیس اور خلیق انجم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ اسلوب احمد انصاری کی کتاب ادبی تبصرے، فاروقی کے تبصرے، ( شمس الرحمن فاروقی )، کتاب شناسی) وغیرہ تبصرہ نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔

Advertisement

Advertisement