Aata Hai Yaad Mujhko Guzra Hua Zamana | آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

0

تعارف شاعر:

اقبال کا شمار اردو کے بلند مرتبہ شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ سیالکوٹ ، ( پنجاب ) میں پیدا ہوۓ ۔ چرچ مشن اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے کیا۔انگلستان سے بیرسٹری اور جرمنی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

اقبال کی شاعری میں فکر و خیال کی گہرائی ملتی ہے انھیں فلسفی شاعر کہا جا تا ہے۔ انھوں نے وطن سے, محبت اور بچوں سے متعلق بہت ہی اچھی نظمیں کہی ہیں۔ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں کوسچائی محبت ، انصاف، ہمدردی مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی مددکرنے کا پیغام دیا ہے۔ ترانہ ہندی ، پہاڑ اور گلہری ، جگنو، ہمدردی ، پرندے کی فریاد اور ماں کا خواب وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔اقبال کی شاعری میں حرکت وعمل اور انسان دوستی کا پیغام ملتا ہے۔ بانگ درا اور بال جبرئیل ان کی اردو شاعری کے اہم مجموعے ہیں۔ ان کے کلام کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔

اشعار کی تشریح:-

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

یہ بند “علامہ محمد اقبال” کی نظم “پرندے کی فریاد” سے لیا گیا ہے۔شاعر ان اشعار میں پرندے کی فریاد کو قید میں جانے کے بعد یوں بیان کرتا ہے کہ مجھے گزرا ہوا وقت بہت یاد آتا ہے جب کہ میں آزاد تھا۔اس وقت باغ میں جو بہاریں تھیں ہر جانب پرندے چہچہا رہے ہوتے تھے مجھے یہ سب یاد آتا ہے۔مگر اب قید میں آجانے کے بعد اپنے گھونسلے والی آزادیاں مزید نہیں رہی ہیں جب میں اپنی خوشی سے آ اور جا سکتا تھا۔اب دل پر چوٹ لگی ہے تو مجھے یاد آتا ہے کہ جب کلیاں کھلتی تھیں تو ان پر موجود شبنم یوں لگتی تھی کہ جیسے وہ کلیاں رو رہی ہوں۔وہ پیاری اور کامنی صورتیں جن کی وجہ سے میرا گھر آباد تھا اب کچھ بھی باقی نہیں ہے۔میں اب ایک پنجرے میں قید ہو چکا ہوں اور اس قید میں اب کچھ بھی میرے بس میں نہیں ہے۔ اے کاش کہ میری رہائش کا اختیار میرے بس میں ہوتا تو میں کبھی بھی اس قید کا انتخاب نہ کرتا۔

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں

اس بند میں شاعر پرندے کی زبانی کہتا ہے کہ میں کتنا بد نصیب ہوں جو گھر کے لیے ترس رہا ہوں۔ میرے ساتھی اور دوست اپنے وطن میں آزاد موجود ہیں جبکہ میں یہاں قید پڑا ہوا ہوں۔ پھولوں پر بہار کی رت آئی ہوئی ہے جس کی وجہ سے کلیاں کھل کو مسکرا رہی ہیں۔ہر طرف بہار اور خوشی کا سماں ہے مگر میں اس قفس میں قید اپنی قسمت کو رو رہا ہوں۔ اے رب میں قید کا دکھ کس طرح بیان کروں میں اتنا غمگین ہوں کہ مجھے ڈر ہے کہ میں اس غم کی شدت سے کہیں اس قید میں ہی نہ مر جاؤں۔

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے!

اس بند میں شاعر پرندے کی فریاد کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پرندہ یہ کہتا ہے کہ جب سے میرا باغ یا گھر مجھ سے دور ہوا ہے تب سے میرا یہ حال ہو چکا ہے کہ میں اس قدر غمگین ہوں کہ میرا دل غم کو اورغم میرے دل کو کھائے جا رہا ہے۔ میں جو بول یا چہچہا رہا ہوں تو اے سننے والوں اسے ہر گز میرا گانا سمجھ کر خوش مت ہو بلکہ میرا یہ بولنا تو میرے غمگین دل کی فریاد ہے۔اس لیے میری یہ التجا ہے کہ مجھے قید کرنے والے مجھے رہا کردو۔میں ایک بے زبان پرندہ ہوں مجھے چھوڑ کر میری دعا لے لو۔

سوچیے اور بتایئے:-

پرندے کوگزرا ہوا زمانہ کیوں یاد آرہا ہے؟

پرندہ اب قید بھری زندگی گزار رہا ہے۔قفس کی قید کی وجہ سے اسے اپنا گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے۔

پرندہ جب آزاد تھا تو اس کی زندگی کیسی تھی؟

پرندہ جب آزاد تھا تو وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر آ اور جا سکتا تھا۔اس کے گرد خوبصورت باغ ان کے نظارے موجود ہوا کرتے تھے۔مگر اب یہ سب ایک خواب بن چکا ہے۔

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم اس مصرعے میں چوٹ لگنے سے کیا مراد ہے؟

اس مصرعے میں چوٹ لگنے سے شاعر کی مراد ہے پرانی یادوں کے آنے سے دل کا غمگین ہونا۔

پرندے نے اپنے آپ کو بدنصیب کیوں کہا ہے؟

پرندے ایک قید بھری زندگی گزار رہا ہے۔وہ اپنے گھر کو ترس رہا ہے۔ یہاں قید میں اسے اپنی مرضی کا کوئی اختیار نہیں ہے اس کے دوست ساتھی سب اس سے دور اپنے وطن میں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے اس نے خود کو بد نصیب کہا ہے۔

پرندہ کیا فریاد کر رہا ہے؟

پرندی آزادی کی فریاد کر رہا ہے۔