Gulzar e Urdu Class 9th Notes | Chapter 1 | گلزارِ اردو

0

کتاب”گلزارِ اردو”برائے نویں جماعت.

  • سبق نمبر:01
  • صنفِ ادب:غزل
  • شاعر کا نام:خواجہ میر درد

تعارف صنف:

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔غزل کے معنی “محبوب سے باتیں کرنا “یا عورتوں سے باتیں کرنا وغیرہ کے ہیں۔اس کا مطلب غزل میں حسن وعشق کی باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن غزل صرف عشق ومحبت تک محدو نہیں بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں سماجی، سیاسی، معاشرتی مسائل فلسفہ وتصوف اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوں کی ترجمانی کی جاتی ہے۔

غزل عموماً پانچ سے سات اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن بعض غزلوں میں اس سے زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ غزل کے ہر شعر میں الگ مضمون ہوتا ہے یعنی اس کے اشعار جداگانہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی غزل کے اشعار ایک ہی موضوع پر ہوں یعنی ان میں تسلسل ہو تو اس کو غزل مسلسل کہا جاتا ہے۔

اگر شاعر ایک ہی مضمون یا تجربے کو ایک سے زیادہ اشعار میں بیان کردے تو اسے قطعہ اور ایسے اشعار کو قطعہ بند کہتے ہیں۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مطلع کے بعد اگر دوسرا شعربھی ہم قافیہ ہو تو اس سے حسن مطلع کہتے ہیں۔ غزل کے آخری شعرکو مقطع کہتے ہیں جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔ غزل کا سب سے عمدہ شعر بیت الغزل یاشاہ غزل کہلاتا ہے۔ ردیف کے بغیربھی غزلیں لکھی جاتی ہیں۔ ایسی غزلیں غیر مردف کہلاتی ہیں۔

تعارف مصنف:

خواجہ میر درد کا پورا نام سید خواجہ میر تھا جبکہ آپ درد تخلص کرتے تھے۔آپ 1721ء کو پیدا ہوئے اور 1785ءمیں آپ کا انتقال ہوا۔آپ کا سلسہ نسب خواجہ بہاء الدین نقشبندی سے ملتا ہے۔خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔یقیناً دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے۔ تصوف ان کو ورثے میں ملا ہے۔

آپ کے آباؤ اجداد بخارا سے دلی آکر آباد ہوگئے تھے۔آپ نے اپنے والد خواجہ ناصر عندلیب سے تعلیم حاصل کی۔ان کی طبیعت میں سادگی اور قناعت پسندی بہت زیادہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ دلی کی تباہی کے زمانے میں جب دوسرے شعراء ہجرت کے گئے تو درد نے ان حالات میں بھی دہلی میں ہی رہنا پسند کیا۔

آپ خودار طبیعت کے مالک تھے۔کبھی کسی شاہ یا بادشاہ کی مداح نہ کی۔اپنی شاعری کے ذریعے آپ نے تصوف کے باریک نکات کو بھی نہایت خوبی سے بیان کیا۔تشبیہات کے نادر اور بر محل استعمال نے ان کے شاعرانہ حسن کو نکھار بخشا۔ان کی غزلیں پر اثر،رواں اور چھوٹی بحروں کی ہیں۔صوفیانہ کے علاوہ ان کے کلام میں عشقیہ شاعری کے بھی بہترین نمونے ملتے ہیں۔

دردؔ کے کلام میں عشق و عقل،جبر و اختیار،خلوت اور انجمن،سفر در سفر،بے ثباتی وبے اعتباری،بقا اور فنا،مکان و لامکاں، وحدت و کثرت،جزو و کل توکل اور فقر کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔مجموعی طور پر دردؔ کی شاعری دل اور روح کو متاثر کرتی ہے۔ ان کا دیوان مختصر مگر اعلیٰ پائے کا ہے۔

غزل کی تشریح:

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم سو کر چلے

خواجہ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ بحیثیت انسان ہم اس دنیا میں آئے اور چل دیے۔میں اس دنیا میں جس مقصد کے تحت آیا اپنے ذمے وہ تہمت لے کر چل دیا۔جس کام کے لیے مجھے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ کرلیا سو اب چل دیے ہیں۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

اس شعر میں شاعر انسانی زندگی کو طوفان سے تشبیہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ یہ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے۔ یعنی شاعر نے زندگی کو اس کی مشکلات کی بنا پر طوفان قرار دیا ہے۔جبکہ انہی مشکلوں کی وجہ سے جینا مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔

دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو، اب ہم تو اپنے گھر چلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دوستوں ہم اس دنیا میں ایسے ہی آئے کہ بس یہاں کا تماشا دیکھا اور اب اپنی منزل کی جانب رواں ہیں۔ تم یہاں رہو جب تک رہنا ہے۔

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ ہمارا دنیا میں آنا ایسا ہی تھا کہ جیسے کوئی شمع جلتی ہے اور موم کی صورت میں اپنے آنسو بہاتی رہتی ہے اور اسی طرح جلتے جلتے ختم ہو جاتی ہے۔ میری زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ روتی آنکھ کے ساتھ دنیا میں آئے تھے اور اب اپنے دامن کو تر کر کے یہاں سے جا رہے ہیں۔

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

اس شعر میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے خود سے سوال کے انداز میں کہتا ہے کہ درد یہ جو لوگ اس دنیا میں آئے تو اور جا رہے ہیں کیا کچھ معلوم ہے کہ یہ سب کس طرف سے آئے تھے اور اب ان کی منزل کون سی ہے؟

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01: پہلے شعر میں ‘تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے’ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ ہم ہر الزام اور برائی اپنے ذمے لے کر جا رہے ہیں۔

سوال نمبر02: شاعر نے زندگی کو طوفان کیوں کہا ہے؟

شاعر نے زندگی کو اس کی مشکلات کی بنا پر اسے طوفان سے تشبیہ دی ہے۔

سوال نمبر03:چوتھے شعر میں شاعرشمع کے حوالے سے کیا بات کہنا چاہتا ہے؟

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دنیا میں آنا ایسا ہی تھا کہ جیسے کوئی شمع جلتی ہے اور موم کی صورت میں اپنے آنسو بہاتی رہتی ہے اور اسی طرح جلتے جلتے ختم ہو جاتی ہے۔ میری زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ روتی آنکھ کے ساتھ دنیا میں آئے تھے اور اب اپنے دامن کو تر کر کے یہاں سے جا رہے ہیں۔

سوال نمبر04:آخری شعر میں زندگی کی کس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟

آخری شعر میں زندگی کی اٹل حقیقت موت کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس دنیا میں آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔