Duniya ki Mehfilon Se Ukta Gaya Translation in Urdu | دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

0

تعارف شاعر:

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سیالکوٹ ہی میں امتیاز کے ساتھ انٹرنس کا امتحان پاس کیا پھر لاہور میں اعلی تعلیم پائی۔ کچھ دن بعد وہ یورپ گئے اور انگلستان سے قانون کی اور جرمنی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی سے اقبال شعر کہنے لگے تھے۔

اقبال نے شاعری کی ابتداغزل سے کی اور داغ سے اصلاح لی۔ آگے چل کر انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے پیغام اور فکر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ حرکت وعمل اور خودی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان خوبیوں کو انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے کلام میں موسیقیت اور زور بیان ہے۔ انھوں نے لفظوں کے انتخاب میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں خوش آہنگی بہت ہے۔ اردو میں ان کے مجموعے بانگ درا ، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ہیں۔ فارسی میں ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوۓ۔

اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا ہندوستانی بڑا ہندوستانی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستانیوں اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی اور تہذیبی غلامی سے آزاد کرایا اور یورپ کے علوم سے مرعوب ہونے کے بجاۓ یورپ سے استفادہ کرنا سکھایا اور یہ بتایا کہ یورپ کی تہذیب مادہ پرستی اور بے انصافی پر مبنی ہے اور اسے بہت جلد زوال آ جائے گا۔اقبال کی شاعری میں فلسفہ تغزل، ڈراما، پیغام عمل اور مذہب اسلام سب اس طرح گھل مل کر ایک ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی طرح کی بے نظیر چیز بن گئی ہے۔

نظم ایک آرزو کی تشریح:

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

یہ شعر علامہ محمد اقبال کی نظم “ایک آرزو” سے لیا گیا ہے۔اس شعر میں شاعر دنیاوی زندگی سے کٹنے اور کی آرزو پیش کرتے ہوئے آرام و سکون کی وہ زندگی جو یاد خداوندی میں بسر ہو اس کی جھلک پیش کر رہا ہے۔ اقبال اللّٰہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے رب میں اس دنیا کی محفلوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ایسی مجلس یا دنیا کا کیا مزہ جب دل ان چیزوں سے بھر چکا ہو۔

شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

شعر کہتا ہے کہ میرا دل ہنگاموں،شور وغل اور اتھل پتھل سے دور بھاگتا ہے۔میرا دل ایسے سکون اور خاموشی کی تلاش میں ہے جہاں کی گئی اور کہی گئی بات میرا دل بھی سن سکے۔ اس سکوت میں تیری ذات کے سوا کوئی مخل نہ ہو پائے۔

مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں خاموشی اور سکوت کی آرزو لیے جی رہا ہوں۔میری خواہش ہے کہ کسی پہاڑ کے دامن میں میرا ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔جہاں تنہائی کا عالم ہو۔

آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پہاڑ کے دامن میں موجود اس جھونپڑے میں،میں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو کر تنہائی کے دن گزاروں۔ یہاں دنیاوی زندگی وہاں کے کام کاج اور ہر طرح کی فکر و غم میرے دل سے رخصت ہو چکا ہو۔

لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کے نغموں میں لذت حاصل کروں۔ان کے چہچانے کی آواز مجھے موسیقی کے نغموں اور یہاں موجود چشمے کی آواز مجھے باجے کی سی موسیقی کا لطف دے۔

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں پھول کی ایک ایک کلی کھل کر یہ پیغام دے کہ اے ساغر ذرا سا مجھ میں جھانکوکہ تمھیں مجھ میں تمام دنیا دکھائی دے گی۔

ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

شاعر کہتا ہے کہ اس پر سکون جگہ اور اس جھونپڑے میں میرا ہاتھ میرا سرہانا ہو اور سبزے کا بچھا ہوا بستر ہی میرا بچھونا ہو۔تنہائی میں بھی وہ منظر اور ادا موجود ہو کہ جس سے محفل بھی شرما جائے۔

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں کے سکوت میں موجود پرندے یرنی بلبل وغیرہ مجھ سے اس قدر مانوس ہوں کہ میری وہاں موجودگی یا قربت پا کر ان کے ننھے منھے دلوں میں خوف کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہو۔

صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے دونوں جانب خوبصورت سر سبز پودے صف باندھے موجود ہوں۔ اور وہ صاف و شفاف ندی کے پانی میں یوں اپنی جھلک دکھلا رہے ہوں گویا کوئی ان کی تصویر لے رہا ہو۔

ہو دل فریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں کے پہاڑوں اور کو ہساروں کا نظارہ اس قدر دل کو موہ لینے والا ہو کہ اس ندی میں بہتی ہوئی پانی کی موجیں بھی اپنا سر اٹھا اٹھا کر انہیں دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

شاعر کہتا ہے کہ اس زمین کی گود میں سویا ہوا سبزے اور یہاں کی جھاڑیوں پر خوبصورت شبنم کے قطروں کا پانی اپنی چمک دکھا رہا ہو۔ندی کا پانی ان سے چمکتا ہوا بہہ کر جا رہا ہو۔

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ پھولوں کی ٹہنیاں اس بہتے پانی کو جھک جھک کر یوں چھو رہی ہوں کہ یہ گمان ظاہر ہو کہ جیسے کوئی حسین آئینے میں اپنے حسن سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں جب غروبِ آفتاب کا نظارہ ہو تو اس کا ساتھ چھوڑتی کرنیں یوں دکھائی دیں کہ جیسے شام کے وقت کوئی دلہن کو مہندی لگا رہا ہو۔ جب کی پھولوں کی ہر ڈالی ہر پتی سرخ لباس پہنے وہاں پر وہ سنہری رنگ لیے موجود ہو۔

راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ راتوں کو سفر طے کرنے والے اور دور دراز جانے والے لوگ جب تھک جائیں تو میرے ٹوٹے ہوئے دیے کو کسی امید کی طرح روشن پاکر وہ سفر کی تھکان دور کرنے کے لے میرے جھونپڑے کی طرف بڑھیں۔

بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو

شاعر اس شعر میں پچھلے شعر کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جب آسمان بادلوں سے گھرا ہوا ہو تو اس مسافر کو آسمان پر موجود بجلی چمک کر میری کٹیا،میرا جھونپڑا دکھائے۔

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں اس سکوت میں رات کے پچھلے پہر یعنی وقت تہجد کوئل کی آواز میرے لیے صبح کے مؤذن کی اذاں کا کام سر انجام دے اور یہاں ہم ایک دوسرے کے ہم نوا بن جائیں۔

کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں پر میرے کانوں سے کسی دیر و حرم یا کسی بھی مسجد مندر کی آواز نہ ٹکرائے۔ بلکہ جھونپڑی کے سوراخ سے آنے والی روشنی ہی میرے لیے صبح کی کرن ثابت ہو۔

پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ رات کے آخری پہر جب شبنم پھولوں کو وضو کرانے آئے تو اس وقت میری عبادت میرا رونا ہی میرے لیے وضو ثابت ہو جبکہ میرے نالے اور فریاد میری دعا ثابت ہوں۔

اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ اس خاموشی میں میری فریاد اور پکار اس قدر بلند ہو کہ تاروں کے قافلے کے لیے میری یہ پکار ان کی منزل کی جانب روانہ ہونے والے قافلے کی آواز بن جائے۔

ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ میری یہ عبادت اور فریاد و پکار ہر درد مند دل کو رلا دے اور ممکن ہے کہ میری یہ دعا اور پکار بے ہوش اور غفلت میں پڑے ہوئے دلوں کو جگا دے گی۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

شاعر نے تنہائی کی کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟ وضاحت کیجیے۔

شاعر نے تنہائی میں عبادت کے لطف کو بیان کیا ہے۔ تنہائی میں دنیاوی فکروں سے دوری ممکن ہے۔ تنہائی میں انسان قدرت کے مناظر اور رازوں پر غور و فکر کر سکتا ہے۔ تنہائی میں انسان بندگی رب کا کرب حاصل کر سکتا ہے۔

پہاڑ کے دامن میں وہ کون سی چیزیں ہیں جن میں شاعر کو خاص دلچسپی ہے؟

پہاڑ کے دامن میں تنہائی میں کی جانے والی عبادت کا لطف، ایک جھونپڑے کی موجودگی، وہاں بہتے ندی کے پانی،وہاں موجود خوبصورت سر سبز نظاروں کا لطف، پرندوں کی چہچہاہٹ،شبنم کا پودوں کو وضو کروانا اور غروب آفتاب کی بکھرتی کرنیں وغیرہ ایسے مناظر ہیں جن میں شاعر کی خاص دلچسپی ہے۔

شاعر کی آرزو کے مطابق رات کے مسافروں کی امید کیا ہوگی؟

شاعر کی آرزو کے مطابق اس کے جھونپڑے میں روشن دیا رات کے مسافروں کی امید ہوگی۔

آخری شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟

آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری یہ عبادت اور فریاد و پکار ہر درد مند دل کو رلا دے اور ممکن ہے کہ میری یہ دعا اور پکار بے ہوش اور غفلت میں پڑے ہوئے دلوں کو جگا دے گی۔

عملی کام:-

درج ذیل اشعار کا مفہوم اپنےالفاظ میں بیان کیے۔

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں اس سکوت میں رات کے پچھلے پہر یعنی وقت تہجد کوئل کی آواز میرے لیے صبح کے مؤذن کی اذاں کا کام سر انجام دے اور یہاں ہم ایک دوسرے کے ہم نوا بن جائیں۔

کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں پر میرے کانوں سے کسی دیر و حرم یا کسی بھی مسجد مندر کی آواز نہ ٹکرائے۔ بلکہ جھونپڑی کے سوراخ سے آنے والی روشنی ہی میرے لیے صبح کی کرن ثابت ہو۔

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

شاعر کہتا ہے کہ یہاں جب غروبِ آفتاب کا نظارہ ہو تو اس کا ساتھ چھوڑتی کرنیں یوں دکھائی دیں کہ جیسے شام کے وقت کوئی دلہن کو مہندی لگا رہا ہو۔ جب کی پھولوں کی ہر ڈالی ہر پتی سرخ لباس پہنے وہاں پر وہ سنہری رنگ لیے موجود ہو۔

نظم سے ایسے دواشعار لکھیے جن میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔

شعر نمبر06 اور 16 میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔

درج ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

جہاں نما کوہساروں کے نظاروں میں ہمارے لیے جہاں نما ہیں۔
سحر نما روشنی کی کرنیں ہمارے لیے سحر نما بن کر آتی ہیں۔
ہم نوا احمد کو ہر معاملے ہر قدم پر میں نے اپنا ہمنوا پایا۔
دل فریب خوبصورت کوہساروں کے دلفریب نظارے دل موہ رہے تھے۔
جلوت اللہ تعالیٰ کی ذات جلوت اور خلوت دونوں میں موجود ہے۔
خلوت اللہ تعالیٰ کی ذات جلوت اور خلوت دونوں میں موجود ہے۔