قصیدہ کی تعریف، اقسام، اجزائے ترکیبی اور روایت

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • شعری اصناف: قصیدہ۔

قصیدہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ لغت میں اس کے معنی ہیں: گاڑھا گودا اور موٹی جوان تندرست اونٹنی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ قصیدے کا لفظ قصد سے بنا ہے جس کے معنی ارادے کے ہیں۔ عربی ادب کی اصطلاح میں قصیدہ ان طویل نظموں کو کہتے ہیں جو رجز اور قطعات کے بعد وجود میں آئیں۔

فارسی اور اردو میں قصیدہ ایک ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح ، ہو یا مذمت کی گئی ہو۔ مدح و ہجو کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی قصیدے کہے گئے ہیں۔ جیسے خلفائے راشدین کی مدح میں مومن کے قصیدے۔

ہیئت کے اعتبار سے قصیدہ کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یعنی غزل کی طرح قصیدہ کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے اور باقی تمام اشعار کے دوسرے مصرعے میں مطلع کی مناسبت سے قافیہ کی پابندی ہوتی ہے۔ قصیدے میں ایک سے زائد مطلع ہو سکتے ہیں۔ لیکن غزل کی طرح وہ مطلع کے فوراً بعد نہیں ہوتے بلکہ قصیدہ کے مختلف اشعار کے درمیان پائے جاتے ہیں۔

رفعت تخیل ، زور بیان الفظی و معنوی صناعی، مبالغہ آرائی اور بلند آہنگی سے قصیدے کا اسلوب عبارت ہے۔ عام طور پر قصیدے کا کوئی نہ کوئی عنوان بھی ہوتا ہے جو قصیدے کے موضوع یا ممدوح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے قصیدے کی درج ذیل قسمیں ہیں۔

قصیدہ کی اقسام

مدحیہ:

وہ قصیدہ جس میں کسی شخصیت کی مدح سرائی کی گئی ہو اسے مدحیہ قصیدہ کہتے ہیں۔

ہجویہ:

وہ قصیدہ جس میں کسی شخص یا حالات حاضرہ کی برائی ، مذمت یا ہجو کی گئی ہو۔ سودا کا قصیدہ در ہجو میر ضاحک یا تضحیک روز گار ہجو یہ قصیدے کی مثال ہیں۔

اللّٰہ تعالی کی شان میں جو قصیدہ کہا جا تا ہے اسے حمد یہ قصیدہ، رسول اللہ کی تعریف میں جو قصیدہ کہا جا تا ہے اسے نعتیہ قصیدہ اور صحابہ کرام اور بزرگان دین کی مدح میں جو قصیدے کہے جاتے ہیں انھیں منقبت کہا جا تاہے۔

مدحیہ قصیدے کی مثال:

فجر ہوتے جو گئی آج مری آنکھ جھپک
دی دو ہیں آکے خوشی نے در دل پر دستک
( در مدح نواب عماد الملک آصف جاہ ) سودا
آیا عمل میں تیغ سے تیری وہ کارزار
دیکھا جسے نہ ترک فلک نے بروزگار
( در مدح نواب شجاع لد وله در تہنیت فتح روہیلہ ) سودا
زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
عیاں ہو خامے سے تحریر نغمہ جاۓ صریر
( در مدح بہادر شاہ ظفر ) ذوق

نعتیہ قصیدے کی مثال:

شاہاجمال وحسن کے تیرے کہوں میں صف کیا
ظاہر میں تو ظل خدا، باطن میں تو نور خدا
جلوہ ترے دیدار کا ہے اس قدر فرحت فزا
حسن مقدس کو ترے جس نے کہ دیکھا یہ کہا
صل على صل على صل على صل على (ذوق)

ہجویہ قصیدے کی مثال:

ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر سوار
رکھتا نہیں ہے دست عناں کا بیک قرار
( قصیدہ تضحیک روزگار در ہجو اسپ ) سودا

قصیدے کے اجزائے ترکیبی:

تشبیب:

قصیدے کے شروع میں اصل موضوع کے بیان سے پہلے تمہید کے طور پر جو اشعار کہے جاتے ہیں انھیں تشبیب‘ یا ’نسیب کہتے ہیں۔ تشبیب سے قصیدے کے اصل موضوع کے لیے فضا سازی کا کام لیا جاتا ہے۔ در اصل موضوع کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ اشعار کہے جاتے ہیں۔ ان ابتدائی اشعار میں بہار، شہاب ،حسن وعشق ، پندو نصیحت، حکمت و فلسفہ وغیرہ مضامین کو اصل موضوع سے قبل پیش کیا جا تا ہے۔

گریز:

تشبیب کے بعد مدح سے پہلے اصل موضوع کی طرف آنے کی غرض سے جو اشعار کہے جاتے ہیں، انھیں گریز کہتے ہیں۔ گریز قصیدے کا نہایت مختصر حصہ ہوتا ہے۔ تشبیب و مدح میں منطقی رابطہ قائم کرنے کے تعلق سے اس کی خاص اہمیت ہے۔

مدح/ہجو:

یہ قصیدے کا اصل جز ہے۔ مدحیہ قصیدے میں ممدوح کی شخصیت اور اس کے اوصاف کا بیان پر شکوہ انداز میں مبالغے کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ مدح میں ممدوح کے جاہ و جلال ، عدل و انصاف، شجاعت و سخاوت اور علم وفضل وغیرہ کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہجو یہ قصیدے میں کسی شخص یا موضوع سے متعلق عیوب اور برائیوں کا بیان شدت اور مبالغے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

حسنِ طلب:

قصیدے کے آخری حصے میں شاعر ایسے اشعار کہتا ہے جن کا مقصد اپنے ممدوح سے صلہ و بخشش اور اعزاز و اکرام طلب کرنا ہوتا ہے۔

دعا:

اس حصے میں شاعر اپنے ممدوح کی صحت و سلامتی ، شان و شوکت اور لمبی عمر کے لیے دعا بھی کرتا ہے۔ اس لیے اس جز کو حسن طلب یا دعا کہتے ہیں۔

خطابیہ قصیدہ:

وہ قصیدہ جس میں تمہید یا تشبیب کے اشعار نہیں ہوتے اور کسی موضوع پر براہ راست خطاب کیا جا تا ہے۔ اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔

اردو میں قصیدہ نگاری کی روایت:

اردو میں قصیدہ نگاری کا آغاز محمد قلی قطب شاہ کے قصیدوں سے ہوتا ہے۔ نصرتی دکن کے سب سے ممتاز قصیدہ گوشاعر ہیں۔ شمالی ہند میں سودا نے اس صنف کی بنیادیں مضبوط کیں۔انھوں نے مشکل زمینوں میں قصیدے لکھے جن سے ان کی قدرت کلام کا پتا چلتا ہے۔شوکت الفاظ ، بلند آہنگی ، زبان پر قدرت، تخیل کی بلندی اور مبالغہ آرائی ان کے قصیدوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

انشا نے قصائد میں عربی ، ہندی اور فارسی الفاظ کا استعمال بڑی برجستگی کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے قصائد میں علم و حکمت کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ اردو قصیدہ نگاری میں سودا کے بعد دوسرا ممتاز نام ذوق کا ہے۔ انھیں مختلف علوم میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ ان علوم کی اصطلاحات کو ذوق نے اپنے قصیدوں میں بڑی خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ان میں زور بیان بھی ہے اور تخیل کی بلندی بھی۔

غالب کے قصیدے بھی جدت طرازی کا اعلی نمونہ ہیں۔ مومن نے نواب ٹونک اور راجا اجیت سنگھ کی مدح میں دو قصیدے لکھے ہیں۔ قصیدے کی تاریخ میں ایک اہم نام محسن کاکوروی کا ہے۔ نعت گوئی ان کا مخصوص میدان تھا۔ انھوں نے کئی نعتیہ قصیدے لکھے ہیں۔ ان کا قصیدہ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل بہت مقبول ہوا۔

مذکورہ بالا شعرا کے علاوہ منیر شکوہ آبادی ، نسیم دہلوی، امیر مینائی اور عزیز لکھنوی کا شمار بھی قصیدہ گو شعرا میں ہوتا ہے۔ کلاسیکی قصائد کا دورختم ہو چکا ہے لیکن تاریخی اعتبار سے قصیدہ اردو شاعری کی اہم صنف ہے۔ شاعری میں زور بیان، قادر الکلامی اور ور مضمون آفرینی کی روایت کو ترقی دینے میں قصیدہ گویوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس صنف کے ذریعے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔