خاکہ کی تعریف اور روایت

0

خاکہ انگریزی لفظ سکیچ کا ترجمہ ہے۔ یعنی خاکہ میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جا تا ہے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے۔

خاکہ نگاری کسی انسان کے ظاہر اور باطن کی عکاسی کا نام ہے۔ یہاں ظاہر سے مراد وہ انسان ہے جس کا خاکہ لکھا گیا ہے کہ وہ کیسا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی جسمانی لحاظ سے وہ کیسا ہے اور اس کی پوشاک ، گفتگو، اٹھنے بیٹھنے کا انداز اور لوگوں سے روابط رکھنے کے سلسلے میں اس کا برتاؤ کس نوعیت کا ہے۔ اسی طرح باطن سے مراد ہے اس کی سوچ ، زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ، اس کی خوش دلی ، بخل، فیاضی، دکھ اور سکھ کے تجربات کے وقت اس کا رویہ کس قسم کا ہے؟ اس کی پسند و ناپسند کیا ہے؟

خاکہ نگاری کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ آپ اسی شخص کا خاکہ لکھ سکتے ہیں جسے آپ بخوبی جانتے ہوں۔ جہاں تک سوانح نگاری اور خاکہ نگاری کے فرق کا تعلق ہے سوانح میں کسی شخص کے بارے میں ترتیب وارتفصیل کے ساتھ لکھا جا تا ہے۔ جب کہ خاکے میں ہر بات کی تفصیل ضروری نہیں ہوتی ہے۔ خاکہ نگار اورسوانح نگار کو اس شخص کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پہلوؤں کی تصویر پیش کرنی پڑتی ہے۔

اردو میں خاکوں کے اولین نمونے تذکروں میں ملتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی کتاب ” آب حیات میں قدرے تفصیل سے شعرا کے خد و خال ، مزاج اور افتادطبع کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اردو کے پہلے باضابطہ خاکہ نگار مرزا فرحت اللہ بیگ ہیں۔ ان کی تصنیف ‘ نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی میں نذیر احمد کا خا کہ جس طور سے پیش کیا گیا ہے اس سے خاکہ نگاری کے اصول وضوابط بھی متعین کیے جا سکتے ہیں۔

1941 میں ڈاکٹر سید عابد حسین کے ریڈیو پر پڑھے گئے خاکوں کا مجموعہ کیا خوب آدمی تھا شائع ہوا۔ بشیر احمد ہاشمی کے خاکے بعنوان گفت و شنید (1943) اور اس کے بعد مولوی عبدالحق کے خاکوں کی کتاب چند ہم عصر 1950) ) شائع ہوئی۔ اسی زمانے میں رشید احمد صدیقی کی گنج ہائے گرانمایہ بھی منظر عام پر آئی۔ ان کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ ہم نفسان رفتہ ہے۔سعادت حسن منٹو کے خاکوں کا مجموعہ گنجے فرشتے (1952) ہے۔ اس میں انھوں نے افسانوی رنگ پیدا کیا ہے۔ عصمت چغتائی کا دوزخی بھی ایک نئے انداز کا خاکہ ہے۔

اعجاز حسین ، خواجہ حسن نظامی ، شوکت تھانوی اور شاہد احمد دہلوی کے خاکے بھی وقیع خیال کیے جاتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی کافن بہت پختہ ہے وہ چہرہ شناس بھی ہیں اور شخصیت کی نفسیات یعنی مزاج اور افتاد کو مجھنے کی کامیاب کوشش بھی کرتے ہیں۔ شوکت تھانوی کے مزاج میں بے تکلفی اور بے ساختگی ہے۔ وہ اکثر شخصیت کے بہت سے پہلوؤں میں سے محض چند پر اکتفا کر لیتے ہیں اور انھیں سے خاکے کو لالہ زار بنا دیتے ہیں۔

اشرف صبوحی کے خاکوں کا مجموعہ دلی کی چند عجیب ہستیاں بھی قابل ذکر ہے۔ ان خاکوں میں تہذیبی زندگی کو ایک خاص پس منظر کے طور پر جگہ دی گئی ہے۔ علی جواد زیدی کے خاکوں کے مجموعے آپ سے ملیے (1964) میں خاکہ نگاری کے فنی اصول و ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔ کسی شخص کے مطالعے میں وہ حد احتیاط کو کبھی عبور نہیں کرتے۔ ان کے یہاں مزاح کا تاثر کہیں کہیں ایک چک کی پیدا کردیتا ہے۔ مزاح کا یہ تاثر شفیقہ فرحت کے خاکوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ متخلص بھوپالی ، یوسف ناظم ، ضیاء الدین احمد برنی ،محمد طفیل، احمد بشیر مجتبی حسین ، انور ظہیر خاں ، ندا فاضلی وغیرہ نے بھی دلچسپ خاکے لکھے ہیں۔