Nazm Chutti Ka Din Tashreeh | نظم چھٹی کا دن کی تشریح

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر15:نظم
  • شاعر کا نام:حامد حسن قادری
  • نظم کا نام:چھٹی کا دن

تعارف شاعر:

مولوی حامد حسن قادری قصبہ چھراؤں ضلع مراد آباد کے ایک زمین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ چھراؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ، رام پور میں داخل ہوئے۔ 1909 میں دسویں درجہ کا امتحان پاس کیا۔ منشی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی سے 1910 میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیاب ہوئے۔

منشی فاضل اور اردو میں خصوصی صلاحیت کے امتحانات 1911 میں لاہور سے پاس کیے۔مہو چھاونی کے ایک پاری اسکول میں 1912 میں بحیثیت استاد تقر ر ہوا۔ اگلے سال اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1927 – 1913 کے دوران حلیم مسلم ہائی اسکول ، کان پور کے ہیڈ مولوی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

سینٹ جانس کالج ، آگرہ میں 1927 میں لکچرر مقرر ہوۓ اور 1945 میں اس کالج میں صدر، شعبہ فارسی اور اردو مقرر ہوۓ۔ 1954 میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوۓ۔ موصوف اردو زبان کے ادیب، ناقد ، مبصر، شاعر، مترجم، مؤرخ اور تاریخ گو تھے۔ انھوں نے لگ بھگ 60 کتابیں تصنیف کیں۔ جس زمانے میں وہ کان پور میں مقیم تھے اسی عرصے میں انھوں نے بچوں کا اردو رسالہ’’ سعید‘‘ جاری کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی سبق آموز کہانیاں تصنیف کیں۔ کئی اہم فارسی کی کتابوں کے ترجمے اردو میں شائع کیے۔ موصوف کی نہایت اہم تصنیف ’’ داستان تاریخ اردو”ہے جس میں اردو نثر کی تاریخ ابتدائی دور لے کر 1960ء تک مع نمونہ نثر دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

نظم چھٹی کا دن کی تشریح:

پیارے بچو! آج ہے چھٹی کا دن
کھیل خوب کھیلو آج ہے چھٹی کا دن

یہ شعر حامد حسن قادری کی نظم “چھٹی کا دن” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر بچوں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیارے بچوں آج چھٹی کا دن ہے اور آج کا دن تمھارے آرام یعنی پڑھائی سے فراغت کا دن ہے۔اس لیے چھٹی کے دن تم خوب سارے کھیل کھیلوں اور اس دن کو خوب سارا لطف اٹھاؤ۔

تیز ہوجاتے ہیں بچے کھیل سے
جس طرح گاڑی کے پہیے تیل سے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بچوں کے لیے کھیل اسی طرح اہم ہے جیسے گاڑی کے پہیوں کو چلنے کے لیے تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔تیل سے گاڑی کے پہث میں تیزی آجاتی ہے جبکہ کھیل بچوں کے اندر تیزی اور پھرتی کو لاتا ہے۔

ضروری کھیل پڑھنے کے لیے
جیسے پانی پیڑ بڑھنے کے لیے ہے

اس شعر میں شاعر موجودہ دور کی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک صحت مند و توانا دماغ کے لیے جتنی پڑھائی اہم ہے اتنا ہی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل بھی اہمیت کا حامل ہے۔جیسے کسی پیڑ کو بڑھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی پڑھائی کو بہتر اور اچھے طور سے کرنے کے لیے کھیل بھی ضروری ہے۔

علم سے ہوجاتا ہے روشن دماغ
تیل سے جس طرح جلتا ہے چراغ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ علم ایک ایسی دولت ہے جو انسان کے دل و دماغ کو روشنی سے منور کرتی ہے۔انسانی دماغ کے لیے علم کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے تیل ڈالنے سے چراغ روشن ہوتا ہے ایسے علم سے انسان کا دماغ روشن ہوتا ہے۔

کھیل سے بڑھتی ہے صحت اس طرح
بھاپ سے چلتا ہے انجن جس طرح

شاعر کہتا ہے کہ چونکہ علم دماغ کی روشنی کے لیے ضروری شے ہے بالکل اسی طرح کھیل انسانی صحت کے لازم و ضروری ہے۔جیسے انجن کے چلنے کے لیے بھاپ انتہائی ناگزیر ہے اسی طرح انسان کی جسمانی صحت کے لیے کھیل کود انتہائی ضروری ہے۔

علم سے یوں پختہ ہوتا ہے مزاج
جس طرح سورج کی گرمی سے اناج

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ علم انسانی دماغ کو تو توانا و روشن رکھتا ہی ہے بلکہ ساتھ ہی یہ انسان کے مزاج میں پختگی و تبدیلی بھی لاتا ہے۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے سورج کی روشنی و حرارت اناج کو پکانے کے لیے ضروری ہوتی ہے ایسے ہی علم انسان کے مزاج میں پختگی لانے کا اہم ذریعہ ہے۔

کھیل سے ہوتا ہے خوش دل اس طرح
پھول کھل جائیں ہوا سے جس طرح

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کھیل کود سے انسانی صحت تو اچھی ہوتی ہی ہے۔کھیل کی مدد سے انسانی دک بھی خوش ہوتا ہے۔کھیل کود اسی طرح انسانی دل میں خوشی لاتا ہے جیسے تروتاز ہوا کے چلنے سے پھول کھل اٹھتے ہیں۔

کھیل سے رہتے ہیں بچے تندرست
ذہن ہو جاتا ہے تیز اور جسم چست

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کھیل کود بچوں کی صحت و جسمانی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے بچے تندرست ہوتے ہیں اور ان کا ذہن ذہانت و تیزی کی جانب بڑھتا ہے۔کھیل کود سے بچوں کے اندر چستی آتی ہے۔

ہے ضروری علم بھی اور کھیل بھی
ہو نہ ان دونوں سے تم غافل کبھی

اس شعر میں شاعر علم و کھیل دونوں کی اہمیت کو بور کروانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ علم اور کھیل دونوں بچوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اس لیے ان دونوں میں توازن بھی ضروری ہے یہ نہیں کہ کھیل کود کے چکر میں پڑھائی سے غفلت برتی جائے اور پڑھائی کے کیے کھیل کود کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جائے۔ان دونوں سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔

وقت جب پڑھنے کا آجاۓ پڑھو
خوب کھیلو کھیل کا جب وقت ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب پڑھائی کا وقت ہو اس وقت پڑھائی کو ہی سب سے زیادہ ضروری اور مقدم جانو لیکن اگر کھیل کود کا وقت آجائے تو اس وقت باقی سب بھول بھال کر جی بھر کر کھیل سے لطف اندوز ہو۔

سوچیے اور بتایئے:-

شاعر نے چھٹی کے دن کو بچوں کو کیا مشورہ دیا ہے؟

شاعر نے چھٹی کے دن بچوں کو کھیل کود کا مشورہ دیا۔

کھیل ہمارے لیے کیوں ضروری ہے؟

کھیل انسانی دماغ کو صحت مند اور چست و توانا بناتا ہے۔کھیل سے بچے کی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔کھیک سے دل خوش ہوتا اور پڑھائی کی صلاحیت مزید بہتر ہوتی ہے۔ اس لیے انسانی جسم کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔

علم سے دماغ کس طرح روشن ہوتا ہے؟

علم انسان پر فہم و ادراک اور شعور کی نئی نئی راہیں کھولتا ہے۔ جو انسانی دماغ کو روشن بنانے میں مدد ادا کرتے ہیں۔

شاعر نے کن چیزوں سے غافل نہ رہنے کو کہا ہے؟

شاعر نے پڑھائی اور کھیل دونوں ہی سے غافل نہ رہنے کو کہا ہے۔

عملی کام:

کھیل اور علم کے بارے میں جو باتیں اس نظم میں کہی گئی ہیں،انھیں اپنے لفظوں میں لکھیے۔

اس نظم میں شاعر نے علم اور کھیل دونوں کی انسانی جسم اور دماغ کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ شاعر کہےلتا ہے کہ علم اور کھیل دونوں انسانی جسم اور دماغ کی تازگی کے لیے یکساں ضروری ہیں۔کھیل انسانی دماغ کو صحت مند اور چست و توانا بناتا ہے۔کھیل سے بچے کی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔

کھیل سے دل خوش ہوتا اور پڑھائی کی صلاحیت مزید بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف علم انسان پر شعور و ادراک کی نئی نئی راہیں کھولتا ہے۔علم انسانی دماغ کوتوانا و روشن رکھتا اور ساتھ ہی یہ انسان کے مزاج میں پختگی و تبدیلی بھی لاتا ہے۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے سورج کی روشنی و حرارت اناج کو پکانے کے لیے ضروری ہوتی ہے ایسے ہی علم انسان کے مزاج میں پختگی لانے کا اہم ذریعہ ہے۔ آخر میں شاعر نے پڑھائی اور کھیل دونوں ہی سے غافل نہ رہنے کو کہا ہے اور دونوں کو انسانی زندگی کے لیے نہایت اہم قرار دیا ہے۔