درد منت کش دوا نہ ہوا کی تشریح | NCERT Urdu Notes

0

تعارف شاعر:

مرزا غالب آ گرے میں پیدا ہوۓ۔ باپ اور چچا کی موت کی وجہ سے غالب بچپن ہی میں تنہارہ گئے اور ان کی دادی نے ان کی پرورش کی۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد غالب دلی آ گئے اور عمر بھر یہیں رہے۔ غالب کی زندگی کے آخری دن لمبی بیماری کی وجہ سے تکلیف میں گزرے لیکن ان کے مزاج کی شوخی اور ذہن کی تازگی تاعمر برقرار رہی۔

غالب اردو کے چند سب سے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ابتدا میں اسد تخلص کرتے تھے، بعد میں غالب اختیار کیا۔ انھوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ نھیں عام راستے سے الگ نئی راہ بنا کر چلنے کا شوق تھا ، یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اپنے عہد کے شاعروں بلکہ کم و بیش اردو کے تمام شاعروں کے کلام سے منفرد ہے۔

غالب کے کلام کو عموماً مشکل سمجھا جا تا ہے پھر بھی ان کے اشعار کی ایک بڑی تعداد آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ان کا بہت سا کلام سادہ اور بظاہر آسان بھی ہے۔ غالب کے اردو اشعار کا مجموعہ دیوان غالب کے نام سے شائع ہوا ہے۔ان کے اردو خطوط کے دو مجموعے عود ہندی اور اردوے معلی معروف ہیں ۔ان کے خطوط میں اردونثر کی ادبی شان، اپنے زمانے کے حالات، ادبی مباحث پر گفتگوغرض بہت کچھ ملتا ہے جس کے باعث غالب ہمارے سب سے بڑے شاعروں کے ساتھ سب سے بڑے نثر نگاروں میں بھی شمارہوتے ہیں۔

غزل کی تشریح:

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

یہ شعر مرزا اسداللہ خاں بیگ غالب کی غزل سے لیا گیا ہے۔اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق میں بہت سی تکالیف میرے درد کی وجہ بنیں۔عشق میں اٹھائی گئی ان تکالیف کو میں نے اپنے درد کی دوا کرنے کی کوشش کی مگر ان سے میرے درد کی دوا ممکن نہ ہو پائی۔عشق کی اس دوا سے میں اچھانہ ہو پایا اور یہ میرے لیے ہر گز برا نہ ہوا۔

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

اس شعر میں شاعر مرزا غالب اپنے ازلی بے پرواہی اور شوخی کے انداز کو اپناتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب اگر تمھیں مجھ سے کوئی گلہ و شکوہ ہے تو خود مجھ سے دوبدو ہوکر یہ گلہ دور کیوں نہیں کرتے ہو اس کے لیے میرے رقیبوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔اپنی اس حرکت سے تم نے محض ایک تماشہ ہی کیا ہے جبکہ اس سے تمھارا وہ شکوہ تو پھر بھی دور نہ ہو پایا۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے محبوب تیرے لب اس قدر شیریں ہیں کہ ان سے نکلنے والی گالیاں بھی مٹھاس سے بھرپور ہیں اور وہ میرے رقیب کی طبیعت پر گراں نہیں گز ر رہی ہیں۔وہ گالیاں کھانے کے بعد بھی بد مزہ نہیں ہوا ہے۔

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آج ہر جانب میرے محبوب کے آنے کی خبر گرم ہے اور آج وہ میرے گھر کو رونق بخشنے والا تھا کہ آج ہی میرے گھر کی حالت اچھی نہیں ہے۔میں تنگ دستی کا شکار ہوں جس کی وجہ سے میں محبوب کے شیان شان اس کا استقبال نہ کر پاؤں گا۔

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر صنعت تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نمرود ایک ایسا شخص تھا جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا۔اس کا یہ دعوی جھوٹا تھا وہ ہر گز خدا نہ تھا اور نہ بندوں کو اس طرح نواز سکتا تھا کہ جس طرح اللہ کی ذات نوازتی ہے۔ میں نے اس نمرود کی بندگی کی مگر اس بندگی میں بھی مجھے کوئج بھلائی میسر نہ آ پائی۔ اس شعر کے ذریعے شاعر دنیاوی خداؤں کی ممانعت کر رہا ہے۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

مرزا غالب کا یہ شعر عشق حقیقی کا شعر ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں تخلیق کرنے والی واحد ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ہمیں عطا کردہ جان بھی اسی کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔مگر یہ زندگی اور جان جس مصرف کے لیے اس نے ہمیں بخشی ہے ہم اس کا حق اتنی بندگی کے باوجود بھی ادا نہ کر پائے ہیں۔

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

مرزا غالب کا یہ شعر شاعرانہ تعلی کا انداز لیے ہوئے ہے۔اس شعر میں شاعر نے بہت منفرد انداز میں تعلی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ میرے جانے کے بعد بھی یہ کہتے ہوئے ملے گیں کہ کوئی غزل یا کچھ پڑھیں کہ آج غالب غزل نہیں کہہ رہا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:’میں نہ اچھا ہوا،برا نہ ہوا’ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ میں اچھا نہ ہوا یعنی صحت یابی کی طرف نہ گیا اور برا بھی نہ ہوا اور یہ سب اس لیے ہوا جب محبوب کے عشق کی تکالیف شاعر کے درد کی دوا نہ بن پائیں۔

سوال نمبر02:شاعر نے رقیبوں کو جمع کرنے پر کیوں اعتراض کیا ہے؟

شاعر نے رقیبوں کو جمع کرنے پر اس لیے اعتراض کیا ہے کہ رقیبوں کو جمع کرنے کے باعث محض ہنگامہ ہی ہوا اور ایک تماشہ لگا اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

سوال نمبر03:پانچویں شعر میں ‘نمرود کی خدائی’ سے کیا مراد ہے؟

اس شعر میں ‘نمرود کی خدائی’ بطور تلمیح استعمال ہوا ہے۔جس میں شاعر نے کہا ہے کہ ایک طویل مدت تک نمرود کی بندگی سے بھی کوئی بھلائی حاصل نہ ہو پائی۔کہ اس نمرود کی خدائی بے فیض تھی۔

سوال نمبر04:’جان دی،دی ہوئی اسی کی تھی’ اس مصرعے میں ‘اسی’ کا اشارہ کس طرف ہے؟

اس مصرعے میں ‘اسی’ کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہے۔

عملی کام:

اس غزل میں کیا کیا قافیے استعمال ہوئے ہیں،لکھیے۔

اس غزل میں دوا،ہوا،ادا،سرا،بے مزا،بوریا،بھلا وغیرہ جیسے ہم قافیہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔