Sar Mein Sauda bhi Nahi Tashreeh in Urdu

0

تعارف شاعر:

ان کا نام رگھو پتی سہائے ، اور فراق تخلص تھا۔ شاعری انھیں ورثے میں ملی تھی اور ان کے والد منشی گورگھ پرشادعبرت گورکھپوری اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔ فراق بھی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور انھوں نے نظم ، غزل، رباعی وغیر ہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔

1917ء میں کانگریس میں شامل ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔فراق کا کلام انسانی عظمت اور دردمندی کے احساس سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عشقیہ معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی زبان میں گھلاوٹ اور مٹھاس ہے۔

انھوں نے عشق کے معاملات کو اکثر بالکل نئے ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ اور بعض نئےمضامین بھی استعمال کیے ہیں۔ رباعی میں انھوں نے سنسکرت کے سنگھاررس سے استفادہ کرتے ہوۓ معشوق کو ایک نئے،دلکش اور گھر یلو رنگ میں پیش کیا۔

نغمہ ساز، غزلستان شعرستان شبنم ستان ، روح کائنات گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہوکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلا درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں “اندازے” اور “اردو کی عشقیہ شاعری” معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

غزل کی تشریح:

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ شعر فراق گورکھپوری کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبت کی منزل پر چلتے ہوئے میرا واسطہ بہت سی ایسی تکالیف سے پڑا ہے کہ اب دل میں محبت کی کوئی تمنا باقی نہیں رہی ہے۔میرے سر سے عشق کا یہ بھوت اتر چکا ہے۔ اور دل میں بھی محبت کی کوئی تمنا باقی نہیں رہی ہے۔لیکن اگلے مصرعے میں شاعر اپنی بات کی ہی تردید کرتےہوئے کہتا ہے کہ اس ترک محبت کا کوئی بھروسہ بھی نہیں ہے۔یعنی آج تو میں نے اس محبت کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے نہ جانے کب یہ محبت کا جنون دوبارہ میرے سر پر سوار ہو جائے گا۔

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے محبوب ایسا نہیں ہے کہ میں نے یکسر تمھیں بھلادیا ہو۔لیکن اس وقت میری کیفیت ایسی ہے کہ مجھے اک مدت گزر گئی ہے تمھیں یاد کیے ہوئے۔ لیکن اگر میں تمھیں یاد نہیں کرتا ہوں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ میں نے تم سے اور تمھاری یادوں سے قطع تعلق کر لیا ہو۔ بلکہ اب بھی تم مجھے یاد ضرور آتے ہو۔

یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر فراق گورکھپوری کہتے ہیں کہ جو عشق کی منزل پر چل نکلتے ہیں ان پر دیوانگی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔وہ شخض اپنے آپ میں بھی نہیں رہتا ہے۔ ایسے لوگ کسی ہنگامے کا سبب کیا بنیں گے۔شاعر اپنے دوست کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے دوست لیکن ہم جیسے دیوانوں کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہوتا ہے۔کہ کبھی مجنوں کی طرح سے یہ انجان راہوں اور دیوانوں کی طرح جنگلوں کی طرف نکل پڑتے ہیں۔

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر اپنے دل کی حالت بیان کرتا ہے کہ جب کوئی دل کسی کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کا محبوب اس سے بے طرح کی لا پرواہی برتنے لگ جاتا ہے۔ محبوب کے سامنے عاشق کی دل کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہے اس کا دل کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔نہ تو اسے اپنوں میں شمار کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا شمار بیگانوں میں ہوتا ہے۔ اس سے ایک عجب طرح کی بے التفاتی روا رکھی جاتی ہے۔لیکن دوسری جانب دل کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کی نظر محبوب سے آگے بڑھتی ہی نہیں ہے اور اسے ہر جانب بھی اپنا محبوب ہی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں

شاعر اس شعر میں محبوب کے رویے کا شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آج تمھاری آنکھوں میں میرے لیے در آنے والی بے رخی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔دوسری جانب آج میرے دل کی بھی یہ حالت ہے کہ اسے کسی صورت صبر و قرار حاصل نہیں ہے۔تمھاری یہ بے رخی میرے دل کو تڑپانے کی وجہ بن رہی ہے۔

منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

مقطعے کے اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کو اپنے منھ سے برا نہیں کہوں گا۔ مگر پھر بھی اس کے بارے میں یہی باتیں گرش میں ہیں کہ اگرچہ وہ میرا دوست اور محبوب ہے مگر وہ آدمی اچھا نہیں ہے۔ جس کی بڑی دلیل اس کی مجھ سے بے رخی برتنا بھی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

مطلعے میں شاعر نے کس کیفیت کا اظہار کیا ہے؟

مطلعے میں شاعر نے اپنے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے کہ اگرچہ ابھی میرے دل میں محبت کی تڑپ اور دماغ میں اس کا جنون نہیں ہے مگر یہ ایسی کیفیت ہے کہ اس محبت کو ترک کرنے کا کوئی بھروسہ بھی نہیں ہے کہ نجانے کب دوبارہ میرا دل میرے محبوب کی جانب مائل ہو جائے۔

خاطر بیمار سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

خاطر بیمار سے شاعر کی مراد اس کا دل ہے۔

غزل کے تیسرے شعر میں محبت کرنے والے کی کس نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے؟

تیسرے شعر میں شاعر نے محبت کرنے والوں کی جس نفسیاتی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ عاشق کا دیوانہ پن ہے۔ جس میں محبوب حالت دیوانگی میں جنگلوں کی طرف نکل جانے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔

جلوہ گہہ ناز سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

جلوہ گہہ ناز سے مراد محبوب کے جلوے اس کی جھلک اور اس کی ادائیں دکھانے کے انداز ہیں۔

عملی کام:-

درج ذیل میں دیے گئے اشعار کو مکمل کیجیے:

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں