9th Standard Urdu Textbook Notes | کتاب “دور پاس”برائے نویں جماعت

0

اشعار کی تشریح:

مٹی کے سب رنگ انوکھے،سب دیوانے مٹی کے
مٹی کے سب کھلاڑی،نئے پرانے مٹی کے

یہ شعر “خلیل الرحمٰن اعظمی” کی نظم گیت سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مٹی کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ مٹی کے جو بھی اور جتنے بھی رنگ ہیں سب انوکھے ہیں۔سب لوگ ہی مٹی کے دیوانے ہیں۔اس دنیا میں موجود سب لوگ بھی مٹی کے ہیں ،مٹی سے بنے ہیں۔چاہے کوئی نیا ہے یا پرانا ہے سب کچھ مٹی کا ہی ہے۔

مٹی کی یہ سندر کایا،مٹی کی ہی ساری مایا
کنکر پتھر،سونا چاندی، سولہ آنے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انسان کا یہ جو خوبصورت جسم ہے یہ بھی مٹی سے تخلیق کردہ ہے۔انسانی دولت بھی سب مٹی کی ہی دین ہے۔چاہے وہ کوئی کنکر یا پتھر ہو یا سونا اور چاندی ہیں سب مٹی سے ہی نکالے گئے ہیں۔حقیقتا یہ سب مٹی سے بنایا گیا ہے اور سب کا سب مٹی ہی ہے۔

مٹی کے سب کھیت ہمارے،مٹی کی پگ ڈنڈی بھی
مٹی کے ہریالے پودے،دانے دانے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں کے سب کھیت کھلیان بھی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔یہاں کی پگڈنڈیاں بھی مٹی کی ہیں۔یہ ہرے بھرے پودے بھی مٹی کی ہی دین ہیں اور دانے وانے سب کچھ مٹی کا ہے یعنی مٹی کے ذریعے ہی ہمیں ملا ہے۔

مٹی کے سب محل دو محلے، مٹی کی چھوٹی سی کٹیا
مٹی کے سب دیے،یہ شمعیں،سب پروانے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں موجود گھر خواہ وہ کسی بادشاہ کا محل دو محلے ہو وہ بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اور اگر کسی غریب کی چھوٹی سی کٹیا یعنی جھونپڑی ہے تو وہ بھی مٹی سے بنائی گئی ہے۔ یہاں موجود سب دیے ان دیوں میں روشن شمعیں اور ان روشن شمعوں کے گرد منڈلاتے ہوئے پروانے سب مٹی کے بنائے گئے ہیں۔

مٹی کا بازار لگا ہے، کورے کورے سے برتن
کس کی صراحی، کس کا پیالہ،سب پیمانے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں ہر جانب مٹی کا بازار لگا ہوا ہے۔اس بازار میں مٹی سے بنائے گئے برتن موجود ہیں جن میں کوری کوری صراحیاں بھی ہیں جو مٹی سے بنی ہیں تو کسی کا پیالہ مٹی کا بنا ہوا ہے یہاں کے سب پیمانے مٹی سے تخلیق کردہ ہیں۔

مٹی کی خوشبو میں بسا ہے، مٹی کا یہ ذردہ ذرہ
مٹی کو مٹی ہی پکارے،حیلے بہانے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چونکہ انسان خود بھی مٹی کا ایک پتلا ہے اس لیے اس کے ذرے ذرے میں مٹی کی محبت اور اس کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ہم سب انسان مٹی سے ہی تخلیق کردہ ہیں اور موت کے بعد بھی واپس مٹی میں جانا ہے اس لیے مٹی کو مٹی ہمیشہ پکارتی رہتی ہے باقی سب حیلے بہانے ہیں۔

سوچیے اور بتایئے:-

شاعر نے کا یا اور مایا کو مٹی کیوں کہا ہے؟

کایا سے مراد ہے جسم ہے اور ہمارا جسم مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے اسی طرح مایا یعنی دولت بھی مٹی کی دین ہے خواہ وہ انسان دھن دولت کی صورت میں حاصل کرتا ہے یا کھیت کھلیان اگا کر اس لیے شاعر نے کایا اور مایا کو مٹی کہا ہے۔

کنکر پتھر،سونا چاندی سولہ آنے مٹی کے‘‘ سے کیا مطلب ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ کنکرپتھر، سونا چاندی وغیرہ سب کچھ مٹی سے بنا ہوا ہے اور مٹی ہی کی دین ہے جو یہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔

شاعر نے محل دو محلے کومٹی کیوں کہا ہے؟

شاعر نے بادشاہوں کے محل دو محلے کو مٹی کہہ کر یہ واضح کیا ہے کہ چاہے کوئی انسان کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اسے اسی مٹی میں جانا ہے۔بڑے بڑے محل بھی مٹی سے بنے ہیں تو چھوٹے چھوٹے جھونپڑے بھی اسی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔

شاعر نے مٹی کی کن کن شکلوں کا ذکر کیا ہے؟

شاعر نے مٹی کے انسان، صراحی ، پیمانے، پیالے، محل ، کٹیا وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔

اس نظم میں زندگی کی کس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے؟

اس نظم میں زندگی کی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان مٹی سے آیا ہے اور اس نے واپس اسی مٹی میں جانا ہے۔اس دنیا کی سب مایا بھی مٹی ہے۔

نیچے دی ہوئی خالی جگہوں میں مناسب لفظ بھریے:

  • مٹی کے سب رنگ انوکھے سب دیوانے مٹی کے (ہر/سب)
  • مٹی کی یہ سندر کایا، مٹی کی ہی ساری مایا (ساری/سب)
  • مٹی کے سب کھیت ہمارے ،مٹی کی پگ ڈنڈی بھی (ہمارے/تمھارے)
  • مٹی کا بازار لگاہے،کورے کورے سے برتن (میلہ/بازار)
  • مٹی کو مٹی ہی پکارے، حیلے بہانے مٹی کے (مٹی/پانی)

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو خانوں کے مطابق لکھیے:

مٹی ، رنگ ، پتھر ،کھیت ، پیالہ ، چاندی ، کٹیا ، پکڈنڈی، کھیل ، صراحی۔

مذکر: رنگ ،پتھر، کھیت، پیالہ ، کھیل۔
مؤنث:۔ مٹی ، چاندی ،کٹیا، پکڈنڈی، صراحی۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:

نئے پرانے
خوشبو بد بو
محل کٹیا
سونا چاندی
چھوٹی بڑی

نظم کے مطابق حصہ’الف’اور’ب’کے صیح جوڑ ملائیے:

حصہ ‘الف’ حصہ’ب’
مٹی کا بازار لگا ہے، کورے کورے سے برتن۔ (مصرعہ نمبر 3 ،،صیح جواب)
مٹی کے سب رنگ انوکھے،سب دیوانے مٹی کے (مصرعہ نمبر 5،صیح جواب)
مٹی کی خوشبو میں بسا ہے، مٹی کا یہ ذردہ ذرہ (مصرعہ نمبر 1،صیح جواب)
مٹی کے سب محل دو محلے، مٹی کی چھوٹی سی کٹیا (مصرعہ نمبر 4،صیح جواب)
مٹی کے سب کھیت ہمارے،مٹی کی پگ ڈنڈی بھی (مصرعہ نمبر 2،صیح جواب)

اس شعر کا مطلب اپنے لفظوں میں لکھیے:

مٹی کی خوشبو میں بسا ہے، مٹی کا یہ ذردہ ذرہ
مٹی کو مٹی ہی پکارے،حیلے بہانے مٹی کے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چونکہ انسان خود بھی مٹی کا ایک پتلا ہے اس لیے اس کے ذرے ذرے میں مٹی کی محبت اور اس کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ہم سب انسان مٹی سے ہی تخلیق کردہ ہیں اور موت کے بعد بھی واپس مٹی میں جانا ہے اس لیے مٹی کو مٹی ہمیشہ پکارتی رہتی ہے باقی سب حیلے بہانے ہیں۔