9th Class Urdu Book Answers | نوائے اردو”برائے نویں جماعت

0

مختصر مضمون نگاری

اردو میں مختصر مضمون نگاری کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے ۔ انھوں نے اس صنف کو سماجی اصلاح کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے بعد مضمون نگاری بھی ایک صنف کی حیثیت سے رائج ہوگئی۔ سماجی موضوعات کے علاوہ علمی ، ادبی ، فلسفیانہ اور دیگر موضوعات پر بھی مضامین کے لکھے جا سکتے ہیں۔ حالی شبلی محمد حسین آزاد، نذ یراحمد، میر ناصر علی، نیازفتچوری ، رشید احمد صدیقی ، مرزا فرحت اللہ بیگ محفوظ علی بدایونی ، ابوالکلام آزاد، خواجہ غلام السید مین وغیرہ اردو کے اہم مضمون نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ مختصر مضمون کی ایک شکل انشائیہ کہلاتی ہے۔ انشائیہ اور مضمون میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ لیکن عام طور پر انشائیہ میں مزاح اور طنز یا خوش مزاجی کا رنگ ہوتا ہے اور انشائیہ نگارا کثر باتیں اپنے حوالے سے، یا اکثر اپنے ہی بارے میں، بیان کرتا ہے۔

تعارف مصنف:

عبد الحلیم نام اور شرر تخلص تھا۔ وہ لکھنو میں پیدا ہوئے اور ان کی ابتدائی تعلیم لکھنو میں ہوئی۔ بعد میں ان کے والد حکیم تفضل حسین نے ان کو کلکتہ مٹیا بر ج بلا لیا۔ یہاں حکیم صاحب ، واجد علی شاہ کی ملازمت میں تھے۔ اہل علم کا بھی اچھا مجمع تھا ، شرر کی علمی نشو ونما یہیں ہوئی۔

انھوں نے اردو، فارسی ، انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کی۔ 70ء میں شرر کو پھر لکھنؤ واپس آنا پڑا۔ لکھنؤ آ کر شرر نے اپناعلمی مشغلہ برابر جاری رکھا مختلف اہل کمال سے فیض حاصل کرتے رہے۔1879ء میں وہ مزید تعلیم کے لیے دہلی گئے۔ دہلی پہنچ کر شرر نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

دہلی سے لکھنؤ واپس آنے کے بعد 1881ء میں انھوں نے اودھ اخبار کی ملازمت کر لی جس میں برابر مضامین لکھتے رہے۔1887ء میں شرر نے اپنا رسالہ دل گداز جاری کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس رسالے میں ان کے ناول ‘ ملک العزیز ور جنا، ، حسن انجلینا ، منصور موہنا قسط وار شائع ہونے لگے۔ کچھ مدت بعد مالی تنگیوں کی وجہ سے ان کو حیدر آباد جانا پڑا ۔ یہاں رہ کر انھوں نے تاریخ سند لیکھنی شروع کی۔

نواب وقارالامرانے ان کی قدردانی کی اور اپنے بیٹے کے ساتھ 1893ء میں انگلستان بھیج دیا جہاں تین سال تک قیام رہا اور انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی۔ واپس آ کر حیدرآباد سے دل گداز جاری کیا۔1909ء میں وہ لکھنو واپس آ گئے اور انھوں نے یہیں وفات پائی۔
عبدالحلیم شرر نے اردو میں تاریخی ناول کی ابتدا کی۔اس کے علاوہ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے جن میں ایک منظوم ڈراما بھی تھا۔’’ گذشتہ لکھنو‘‘ نامی کتاب میں انھوں نے نوابی لکھنو کے آخری زمانے کی تہذیب کا بہت دلچسپ اور معلومات افروز مرقع پیش کیا ہے۔

خلاصہ سبق:

یہ سبق “دیہات کی زندگی” عبدالحلیم شرر کا مختصر مضمون ہے۔جس میں مصنف نے دیہی زندگی کے بہت اہم اور دلچسپ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ وہ دیہی زندگی اور وہاں کے کسان کی زندگی پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیہات میں رہنے والے ایک پر سکون و سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔

کسان صبح سویرے اٹھ کر نہ صرف صبح کے دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہوتاہے بلکہ کبھی اپنے کام کی فکر ان نظاروں کا بھرپور لطف بھی نہیں لے پاتا اور منھ اندھیرے ہی اپنی منزل کی جانب رواں ہو جاتا ہے۔ وہ دیہاتی زندگی میں موجود سادگی کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ اگرچہ دوسرے لوگوں کے لیے بے انتہا مشقت اٹھاتے ہیں مگر خود کی زندگی میں سادگی کو اتنا دخل ہے کہ جو کچھ بھی ان کو کھانے کو پیش کیا جائے اس کو صبر و شکر کر کے اور اللہ کا انعام جانتے ہوئے کھا لیں گیں۔

یہاں کی سادگی محض ایک عام اور غریب آدمی کی زندگی سے نہیں جھلکے گی بلکہ یہاں کے امراء اور سر پنج کی زندگی میں وہی سادگی نمایاں ہو گی۔ اس کے فیصلے کو اہمیت دی جائے گی اس کا فیصلہ اور حکم یہاں کے لوگوں کے لیے ایسے ہی اہم۔ہو گا کہ جیسے یہ کوئی حکم آخر ہو جسے کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔

یہاں کے لوگ اس وقت اپنی بھرپور مشقت میں مشغول ہوتے ہیں جب ایک شہری آدمی غفلت میں ڈوبا ہوا ہو گاؤں کے نہ تھکنے والے اور اپنی دھن کے پکے لوگ ہیں۔ان کا ہر دن بس اس نئی امید کا شاخسانہ لیے ہوئے ہوتا کہ جک وہ اپنی فصل کو اس سے بھی تروتازہ پائیں گے۔ یہاں قدرت کے سچے جلوے افروز دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی قوت ان کا اتفاق اور ہمدردی ان کا ہتھیار ہے۔جو کچھ اگاتے اسے دوسروں میں صرف کرتے ہیں اور اپنے اگائے میں سے بھی خود بہت تھوڑا لیتے ہیں۔

ایک کسان جس محنت سے اپنی فصل بوتا اس کی دیکھ بھال کرکے اسے کاشت کرتا ہے اور پھر اس اناج کو سب لوگون بلخصوص شہری معاشرت کی رسائی میں لاتا ہے اس کسان کی یہ جفا کشی درحقیقت اس کے محب وطن ہونے کا ثبوت ہے اور یہی ہمدردی ہے کہ جس سے ملک و قوم ترقی کے راستے ہر گامزن ہوتا ہے۔ یوں دنیا کی بھلائی کے لیے ایک کسان کی محنت و مشقت ہی میں ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:دیہات کے رہنے والے زندگی کا کیا لطف اٹھاتے ہیں؟ شہر کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی کس طرح مختلف ہوتی ہے؟

دیہات کے رہنے والے صبح سویرے کے دلفریب اور سحر انگیز نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ نظارے شہر کی زندگی میں میسر ہونا یا ان کو پا سکنا مشکل ہی نہیں ناممکن سی بات ہے۔ دیہی لوگ جفا کش، سادہ اور پرسکون زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ شہری لوگوں کی زندگی ایک لگی بندھی، اور ذہنی سکون سے عاری زندگی ہوتی ہے۔

سوال نمبر02:دیہی زندگی کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے قوموں اور ملکوں کی ترقی وابستہ ہے؟

دیہی زندگی میں ایک کسان جس محنت سے اپنی فصل بوتا اس کی دیکھ بھال کرکے اسے کاشت کرتا ہے اور پھر اس اناج کو سب لوگون بلخصوص شہری معاشرت کی رسائی میں لاتا ہے اس کسان کی یہ جفا کشی درحقیقت اس کے محب وطن ہونے کا ثبوت ہے اور یہی ہمدردی ہے کہ جس سے ملک و قوم ترقی کے راستے ہر گامزن ہوتا ہے۔ یوں دنیا کی بھلائی کے لیے ایک کسان کی محنت و مشقت ہی میں ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔

سوال نمبر03:اس سبق میں مصنف نے کسان کی زندگی کے کن پہلوؤں پر غور کر نے کا مشورہ دیا ہے؟

اس سبق میں مصنف نے ایک کسان کی ہمدردی، محنت، جفاکشی، سادگی، جیسے پہلوؤں پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

عملی کام:

اس مضمون کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

سبق کا خلاصہ اوپر ملاحظہ فرمائیں۔

آپ نے کوئی گاؤں ضرور دیکھا ہوگا۔ اس پر ایک مضمون لکھیے۔

شہری زندگی کی لگی بندھی زندگی سے ایک وقفہ حاصل کرنے کے لیے جب میں ایک گاؤں کی سیر کے لیے گیا تو وہاں کی پر لطف اور سادگی سے بھرپور پور زندگی نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ یہ گاؤں ہمارے شہر سے 35 کلومیٹر کی مسافت پر واقع تھا۔ گاؤں کی فضا بہت صاف ستھری تھی شہر کی آلودہ فضا سے یہاں آکر سانس لینے پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی تازہ کشید کیا گیا عطر انسان اپنے اندر اتار رہا ہو۔

یہاں کی محض فضا ہی تروتازہ نہ تھی بلکہ یہاں کے اگائے گئے پھل اور تازہ سبزیاں بھی بہت لذیذ اور ذائقے دار تھیں۔ گاؤں میں جن کے گھر قیام کیا ان کی سادگی اور سکون سے بھرپور زندگی قابل رشک تھی۔ یہ سادگی ان کے رہنے سہنے کے انداز،کھانے پینے غرض ہر چیز سے بخوبی جگکک رہی تھی۔ گاؤں میں ٹریفک کا شور، جام ، فضائی و صوتی آلودگی جیسے عناصر کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا جو یہاں کی فضا کو مزید پر سکون اور سحر انگیز بنا رہی تھی۔

یہاں کا پانی تازہ تھا۔ سر سبز کھیت اور تا حد نگاہ پھیلا ہوا سبزہ آنکھوں کو تراوٹ اور زہن کو سکون بخشتا تھا۔ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں موجود سکون شہر کی آسائشوں کے کبھی ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ یہ سفر ایک سکون آمیز اور یادگار ترین سفر تھا۔

ذیل کے الفاظ میں جمع کی واحد اور واحد کی جمع بنائیے۔

منزل منازل
غریب غرباء
غرض اغراض
سبب اسباب
سبق اسباق
آفت آفات
خادم خدام
کتاب کتابیں
امیر امرا
شاعر شعراء
جذبہ جذبات
تحفہ تحائف
امر امور

درج ذیل اقتباس کا مطلب اپنے الفاظ میں لکھیے :

گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اور بسیط حالت پر ہیں ۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اوراطمینان سے گزرتی ہے۔ان کی فکر میں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمارا سکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے۔ اس لیے وہ خدا کی بے واسطہ ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں۔

اس اقتباس میں مصنف نے گاؤں کی زندگی پر غور وفکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ گاؤں کی زندگی ایک سادہ اور سیدھی سادی ڈگر پر چلنے والی زندگی ہے۔یی زندگی نہ صرف سادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں کفایت شعاری کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ جس میں شہری زندگی کے مقابلے میں فکر کا پہلو بہت کم موجود ہوتا ہے۔ وہاں پیسے اور دیگر معاملات کا عمل دخل بہت کم ہوتا ہے کیوں کہ ان کی سب امیدیں صرف رازق یعنی اللہ کی ذات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اللہ ان کو جتنا اور جس قدر نوازتا ہے اسی کو وہ اپنا کل سرمایہ اور دولت مان لیتے ہیں۔