مرثیہ کی تعریف، اجزائے ترکیبی، شخصی مرثیہ، سلام کی تعریف

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر04:شعری اصناف

مرثیہ کی تعریف

مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت پر اس کے اوصاف بیان کر کے رنج وغم کا اظہار کیا جائے۔ اردو میں مرثیہ کا لفظ میدان کربلا میں حضرت امام حسین اور ان کے دیگر رفقا کی شہادت کے بیان سے مخصوص ہو گیا ہے۔ دیگر لوگوں کی موت پر کہے جانے والے مرثیوں کو شخصی مرثیہ کہا جا تا ہے۔

اردو شاعری کی دوسری اہم اصناف کی طرح مرثیے کی ابتدا بھی دکن میں ہوئی۔ دکن کے عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں اردو مرثیہ نگاری نے ارتقائی منزلیں طے کیں۔ ابتدا میں مرثیہ کے لیے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں تھی۔ مرزا محمد رفیع سودا پہلے شاعر تھے جنھوں نے مرثیہ کو مسدس ( چھے مصرعے کا ایک بند ) کی شکل دی۔ بعد کے مرثیہ نگاروں نے اس ہیئت کو اختیار کر لیا۔ مرثیہ میں ایثار ، قربانی اور شرافت و انسانیت جیسی اعلی اقدار کی خاص اہمیت ہے۔

شمالی ہندوستان میں اردو مرثیے کے پہلے شاعراسماعیل امروہوی ہیں جن کا مرثیہ وفات بی بی فاطمۂ مثنوی کی ہیت میں ہے۔ بعد کے شعرا میں گدا، سکندر، سعادت ، سودا، میر مصحفی اور قائم کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ مرثیے کا دوسرا اہم دور چنو لال دلگیر، میر ضمیر اور میر خلیق سے شروع ہوتا ہے۔ دلگیر پہلے مرثیہ نگار ہیں جنھوں نے مرثیوں میں مکالماتی فضا کا اضافہ کیا۔ میر ضمیر اور میر خلیق تک پہنچتے پہنچتے مرثیہ نے سایہ کربلا کے حوالے سے بیانیہ نظم کی حیثیت اختیار کر لی جسے انیس اور دبیر نے درجۂ کمال تک پہنچا دیا اور مرثیے کے درج ذیل اجزائے ترکیبی طے پائے:

چہرہ:

مرثیہ کا ابتدائی حصہ چہرہ کہلاتا ہے۔ اس حصے میں شاعر مرثیے کی تمہید باندھتا ہے۔ یہ تمہید بھی مناظر فطرت کے بیان پر کبھی قلم یا شعر کی تعریف پر کبھی شاعرانہ تعلی کے بیان پر اور کبھی موضوع کی مناسبت سے کسی فلسفیانہ مسئلے پر مبنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انیس کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں صبح کے منظر کا بیان ہے :

چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دم بہ دم
مرغان باغ کی وہ خوش الحانی
وہ آب وتاب نہر،وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

سراپا :

چہرہ یا تمہید کے بعد مرثیہ نگار مرثیے کے ہیرو کا خاکہ بیان کرتا ہے جسے سراپا کہا جاتا ہے۔ ممدوح کے خد و خال ، قد و قامت اور شان و شوکت کو بھی سراپا میں شامل کیا جا تا ہے۔مثلاً

ہیشانیاں خورشید جہاں تاب سے بہتر
رخسارہ رنگین گل شاداب سے بہتر
دانتوں کی صفا،گوہر نایاب سے بہتر
چہروں کا عرق موتیوں کی آب سے بہتر
ابرو نہیں پیشانی ذی قدر کے نیچے
ہیں دو مہ نوبال سے اک بدر کے نیچے

رخصت:

اس حصے میں جنگ کے لیے اپنے اہل خانہ اور عزیزوں سے ہیرو کے رخصت ہونے کا منظر جذباتی انداز میں بیان ہوتا ہے۔ مثلاً

جب سب سے مل چکا تو یہ حر نے کیا کلام
امیدوار حرب کی رخصت کا ہے غلام
رو کر اس سے یہ کہنے لگے شاہ تشنہ کام
اک دم تو گھر میں فاقہ کشوں کے بھی کر قیام
ہم پہلے داغ خویش و برادر کے دیکھ لیں
تو ہم کو دیکھ، ہم تجھ جی بھر کے دیکھ لیں

آمد:

اس حصے میں میدان جنگ میں ہیرو کی آمد کا بیان ہوتا ہے۔ یہاں سے مرثیے میں مزید زور پیدا ہو جا تا ہے۔ مثلاً

حر چلا فوج مخالف پہ اڑا کر تو سن
جو کڑی بھول گئے جس کی تگابو سے ہرن
وہ جلال اور وہ شوکت،وہ غضب کی چتون
ہاتھ میں تیغ،کماں دوش پہ،بر میں جوشن
دوسرے دوش پہ شملے کے جو بل کھاتے تھے
کاکل حور کے سب پیچ کھلے جاتے تھے

رجز:

اس حصے میں ہیرو اپنی اور اپنے آباو اجداد کے اوصاف و کمالات اور جرأت و بہادری کا اظہار کرتا ہے۔ مثلاً:

ہم صاحب شمشیر ہیں، ہم شیر جری ہیں
ہم بندہ مقبول ہیں، عصیاں سے بری ہیں
ایک ان میں سے میں آیا ہوں، جرأت مری دیکھو
سن دیکھو مرا اور شجاعت مری دیکھو
کیا دیر ہے، منہ پر مری شمشیر کے آؤ
دیکھوں تو بھلا کچھ ہنر جنگ دکھاؤ

رزم / جنگ :

اس حصے میں حق و باطل کی جنگ کا منظر پیش کیا جا تا ہے۔ یہاں مرثیہ نگار اپنے ممدوح کی شجاعت ، جنگی داؤ پیچ ، گھوڑے اور اسلحہ جات وغیرہ کا فخریہ بیان کرتا ہے۔ مثلاً

قاسم نے رن میں لاشے پہ لاشہ گرا دیا
عباس نے بھی خون کا دریا بہا دیا
اکبر نے دم میں ناموروں کو بھگا دیا
اندازِ ضربِ شیر الہی دکھا دیا
تنہا جب اس کے بعد شہ بحر و بر ہوئے
تیروں کے سامنے علی اصغر سپر ہوۓ

شہادت:

مرثیے کا یہ وہ حصہ ہے جس میں ہیرو دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے۔ یہاں مرثیہ نگار شدید رنج وغم کا ایسا ماحول پیدا کرتا ہے کہ سوگواری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔مثلاً

لیتا تھا غش میں ہچکیاں وہ چودہویں کا ماہ
جو ھرز فرق پاک پہ مارا کس نے آہ
بیٹھا گلے پہ تیر کہ حالت ہوئی تباہ
رہوار سے گرا پسر شاہ دیں پناہ
بنت رسول رونے کو منہ ڈھانپنے لگی
تڑپا وہ نوجواں کہ زمیں کانپنے لگی

بین:

شہادت کے بعد جب میت اہل خانہ اور عزیزوں کے درمیان آتی ہے تو وہ گر یہ وزاری کرتے ہیں۔ یہ اسی آہ و بکا کو بین کہتے ہیں ۔مثلاً

شبیر نے یہ نیچے کی ڈیوڑھی سے پکارا، مارے گئے اکبر
گھر لٹ گیا ، اے بانوے دلشاد تمھارا، مارے گئے اکبر
ہم بیکس و تنہا ہوۓ، واحسرت و دردا، واحسرت ودردا
جینے کا سہارا نہ رہا کوئی سہارا، مارے گئے اکبر

بیسویں صدی میں جو مر ثیے لکھے گئے ہیں ان کا شمار جدید مراثی میں ہوتا ہے۔ ان کے موضوعات مرثیہ سے مختلف ہوتے ہیں۔ روایتی مرثیہ بزم و رزم سے پہچانا گیا تو جدید مرثیہ محنت وعزام کا مرقع بنا۔ جدید مرثیے میں اخلاق کا درس ، جرأت و حوصلہ و فلسفہ کا اضافہ ہوا۔ جدید مرثیہ نگاروں نے پرانے مرثیہ نگاروں کے بنائے ہوئے اجزائے ترکیبی کو اپنے مرثیوں کے لیے ضروری نہیں سمجھا۔ جدید مرثیہ نگاروں میں جوش ملیح آبادی، جمیل مظہری ، آل رضا، نجم آفندی، نسیم امروہوی ، سردار جعفری، وحید اختر اور مہدی نظمی کے نام اہم ہیں۔

نوحہ کی تعریف

نوحہ کے لغوی معنی رونے اور ماتم کرنے کے ہیں۔ اردو میں نوحہ گوئی کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنی مرثیہ اور سلام کی۔ عام طور پر نوحہ مستزاد کی شکل میں لکھا گیا ہے کیوں کہ اجتماعی طور پر نوحہ پڑھتے ہوئے کسی ایک مصرعہ کو جواباً پڑھا جاتا ہے جس کی ردیف میں ہائے ہائے ، وائے حسین ، واویلا ، ہائے حسین اور الوداع’ جیسے لفظ ہوتے ہیں۔ نوحہ کے ذیل میں واویلا ، ماتم اور دوہا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔نوحہ کے لیے کوئی ہیئت مقرر نہیں ہے۔ اردو کے نوحہ گو شاعروں میں میر انیس، مرزا دبیر، فاخرلکھنوی ، نجم آفندی ،فضل نقوی، اختر زیدی ، مہدی نظمی اور ریحان اعظمی کے نام اہم ہیں۔نوحہ کی ایک مثال دیکھیے :

شبیر نے یہ خیمے کی ڈیوڑھی سے پکارا، مارے گئے اکبر
گھر لٹ گیا، اے بانوے دل شاد تمہارا، مارے گئے اکبر
ہم بے کس و تنہا ہوۓ ، واحسرت و دردا، واحسرت و دردا
جینے کا ہمارا نہ رہا کوئی سہارا، مارے گئے اکبر
ز ینب سے یہ کہہ دو کہ کرے چاک گریہاں، پیٹے بصد افغان
نیزے سے تیرے لال کادل چھد گیاسارا، مارے گئے اکبر
چاہا تھا کہ ہم پہلے گلا اپنا کٹا ئیں، بیٹے کو بچائیں
تقدیر سے لیکن نہ چلا اور ہمارا ، مارے گئے اکبر
اٹھارہ برس کی مری دولت ہوئی بر باد، فریاد ہے فریاد
تنہا ہوا اب حیدر کرار کا پیارا ، مارے گئے اکبر
غل ہوتا تھا خیمے میں انیس، آہ و بکا کا ساماں تھی عزا کا
جب کہتا تھا رو کر اسد اللہ کا پیارا مارے گئے اکبر

سلام کی تعریف

سلام وہ منظوم کلام ہے جس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور صلوۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا جا تا ہے۔ نعت کی طرح سلام بھی یوں تو حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہی مخصوص ہے لیکن اردو شاعری کی روایت میں حضور ﷺ کے علاوہ خلفائے راشدین کے باب میں بھی سلام کے نمونے ملتے ہیں۔ شہدائے کر بلا بالخصوص حضرت حسین علیہ السّلام کے لیے بھی مرثیے کی شکل میں سلام پیش کیے گئے ہیں۔ بعض بزرگان دین کے لیے بھی سلام کہے گئے ہیں۔

نعتیہ سلام کہنے والوں میں امیر مینائی ، مولانا ظفر علی خاں ، مولانا احمد رضا خاں ، حفیظ جالندھری اور مولوی فیروز الدین کے نام قابل ذکر ہیں۔نعتیہ شاعری کے علاوہ سلام مرثیے کی ایک شاخ بھی ہے جس میں رحلت رسول و آل رسول ، واقعہ کر بلا کے بعض پہلو، شہیدان کربلا کی شخصیت اور ان کے اوصاف کا بیان ہوتا ہے۔

اردو میں سلام گوئی کا آغاز

اردو میں سلام گوئی کا آغاز دکن سے ہوتا ہے لیکن اس صنف کو لکھنو کے مرثیہ نگاروں نے عروج پر پہنچا دیا۔ انھوں نے سلام میں غزل کا پیرایہ اختیار کیا تا کہ ذکر شہادت کے سلسلے میں الگ الگ خیالات و احساسات ادا ہوسکیں۔ شروع میں جوسلام کہے گئے ان میں عقیدت کی فضا کو ہی اولیت دی جاتی رہی۔ بعد میں زبان و بیان پر زور دیا گیا اورفنی تدابیر کا بھی اہتمام کیا جانے لگا۔سلام کو ایک مستقل حیثیت دینے والوں میں سودا کو اولیت حاصل ہے۔ میر، ودرد مصحفی ، رنگین اور جرات جیسے شاعروں نے سلام کے لیے نئی زمینوں کا انتخاب کیا۔ مضامین میں جدت اور زبان و بیان جیسے پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی۔

غالب، ذوق ، مومن اور داغ نے سلام کے مقام کو مزید بلند کیا۔ لکھنو میں انیس و دبیر نے مرثیہ نگاری کے ساتھ ساتھ سلام گوئی پر بھی خصوصی توجہ دی۔ ان شاعروں کے سلام زیادہ تر واقعات کر بلا کے محور پر گردش کرتے ہیں۔موجودہ دور میں بھی سلام گوئی کا سلسہ جاری ہے۔ سلام کی محفلیں بھی منعقد ہوتی ہیں جنھیں مسالمہ کہا جا تا ہے۔سلام کی مثال ملاحظہ ہو:

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
مہر چرخ نبوت پہ روشن درود
گل باغ رسالت پہ لاکھوں سلام
شہر یار ارم،تاجدار حرم
نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
(احمد رضا خان)
سلام اے آمنہ کے لعل اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات، فخر نوع انسانی
سلام اے معمر وحدت، اے سراج بزم ایمانی
ز ہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزار ہستی میں
شریک حال قسمت ہو گیا پھر فضل ربانی
سلام اے صاحب خلق عظیم، انساں کو سکھلا دے
یہی اعمال پاکیزہ، یہی اشغال روحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشه، ترا جلوه
تبسم ، گفتگو، بنده نوازی، خندہ پیشانی
زمانہ منتظر ہے اب نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی اجزاۓ ہستی کی پریشانی
زمیں کا گوشہ گوشہ نور سے معمور ہو جاۓ
ترے پر تو سے مل جاۓ ہر اک ذرے کو تابانی
حفیظ بینوا بھی ہے گدائے کوچہ الفت
عقیدت کی جبیں تیری مروت سے سے نورانی
(حفیظ جالندھری

شخصی مرثیہ کی تعریف

شخصی مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں دوستوں، عزیزوں ،قومی رہنماؤں اور بڑے ادیبوں کی موت پر اظہار غم کیا جائے۔ اردو کے بہترین شخصی مرثیوں میں غالب کا مرثیہ عارف ، حالی کا مرثیہ غالب، اقبال کا مر ثیہ داغ اور حکمت کے مراثی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح محمدعلی جوہر نے سرسید احمد خان کی رحلت پر، سرور جہاں آبادی نے داغ کی وفات پر، جوش ملیح آبادی اور صفی لکھنوی نے مہاتما گاندھی کی وفات پر جو مرثیے لکھے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔شخصی مرثیے غزل، مثنوی اور نظم کی مختلف ہیتوں میں لکھے گئے ہیں۔ اقبال کی نظم داغ‘ کا پہلا بند ملاحظہ ہو:

عظمت غالب ہے اک مدت سے پيوند زميں
مہدي مجروح ہے شہر خموشاں کا مکيں
توڑ ڈالي موت نے غربت ميں مينائے امير
چشم محفل ميں ہے اب تک کيف صہبائے امير
آج ليکن ہمنوا! سارا چمن ماتم ميں ہے
شمع روشن بجھ گئي، بزم سخن ميں ہے
بلبل دلي نے باندھا اس چمن ميں آشياں
ہم نوا ہيں سب عنادل باغ ہستي کے جہاں
چل بسا داغ آہ! ميت اس کي زيب دوش ہے
آخري شاعر جہان آباد کا خاموش ہے

ثلاثی کی تعریف

ثلاثی کو تثلیث اور مثلث بھی کہتے ہیں۔ یہ تین مصرعوں پر مشتمل شعری بیت ہے جو مختلف اوزان اور مختلف قافیوں کے نظام سے کسی مکمل خیال کا اظہار کرتی ہے۔ پرانی شاعری میں تین تین مصرعوں کے بندوں پر مشتمل طویل نظمیں پائی جاتی ہیں۔ نئی شاعری میں ثلاثی کے نام سے صرف تین مصرعے ایک مکمل نظم کی حیثیت سے پیش کیے جاتے ہیں۔ حمایت علی شاعر کی ایک ثلاثی دیکھیے :

پھر کوئی فرمان، اے رب جلیل
ذہن کے غار حرا میں کب سے ہے
فکرمحو انتظار جبرئیل