یاد نگاری/ڈائری کی تعریف ، اقسام اور روایت

0

ڈائری کو اردو میں یادنگاری، بیان، روز نامچہ، دستکی اور یادداشت سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ ڈائری انتہائی ذاتی نوعیت کی تحریر ہوتی ہے۔ ڈائری نگار کی دلچسپی ، اس کے خیالات، تصورات اور شخصیت کانکس اس کے ہر صفحے پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔

سوانح لکھنے والے کے لیے ڈائری نگار کی بیاض اور اس کے مکتوبات اہم ماخذ ہوتے ہیں۔ڈائری ہر آدمی لکھ سکتا ہے ۔ ڈائری نگار کو کسی موضوع و مسئلے پر گھنٹوں غور وفکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن ڈائری اس وقت ڈائری کہلاۓ گی جب کہ ڈائری لکھنے والے کے تجربوں میں کچھ ایسی باتیں بھی ہوں جو دوسروں کے لیے دلچسپ ہوسکیں۔

کسی نہ کسی شعبہ زندگی میں ڈائری نگار اگر کوئی اہم مقام رکھتا ہے اور سماجی سطح پر مقبول خاص و عام بھی ہے تو اس کی ڈائری بھی دلچسپ ہوسکتی ہے۔

ڈائری کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذاتی اور دوسری محاضراتی۔ ذاتی سے مراد وہ ڈائری ہے جس کا موضوع ابتدا سے انتہا تک لکھنے والے کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنی ذات سے وابستہ دیگر مظاہر اور اشخاص کا ذکر بھی کرتا ہے لیکن دوسری چیزوں کے مقابلے میں اس کی توجہ اپنی ذات پر زیادہ ہوتی ہے۔

محاضراتی سے مراد وہ ڈائری ہے جس میں مصنف اپنی ذات پر توجہ کم دیتا ہے۔ حالات حاضرہ اور دیگر قسم کی سرگرمیوں پر اس کی نگاہ زیادہ ہوتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی یادداشتیں یا روز نامچے اس کی عمدہ مثالیں ہیں جن میں وہ اپنی ذات سے زیادہ سیاسی ، سماجی اور تہذیبی سرگرمیوں کو اپنی ڈائری کا موضوع بناتے ہیں۔

اختر انصاری کی ادبی ڈائری، سجاد ظہیر کی کتاب روشنائی کو ادبی ڈائری کہا جا سکتا ہے۔ فیض کی ماہ و سال آشنائی بھی ادبی ڈائری کی مثال ہے۔ اردو میں مولوی مظہر علی سند یلوی اور محمد علی ردولوی کے روز نامچوں کا شمار بھی یادگار ڈائریوں میں کیا جاتا ہے۔