نظم تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ کی تشریح | Taleem se Betawajeeh ka Nateeja Question Answer

0

تعارف صنف:

نظم کے معنی انتظام ،ترتیب یا آرائش‘‘ کے ہیں۔ عام اور وسیع مفہوم میں یہ لفظ نثر کے مد مقابل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد پوری شاعری ہوتی ہے۔ اس میں وہ تمام اصناف اور اسالیب شامل ہوتے ہیں جو ہیئت کے اعتبار سے نثر نہیں ہیں۔

اصطلاحی معنوں میں غزل کے علاوہ تمام شاعری کو نظم‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پراظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔ خیال کا تدریجی ارتقا بھی نظم کی ایک اہم خصوصیت بتایا گیا ہے۔ طویل نظموں میں پیار واضح ہوتا ہے مختصر نظموں میں یہ ارتقا واضح نہیں ہوتا اور اکثر و بیشتر ایک تاثر کی شکل میں بھرتا ہے۔نظم کے لیے نہ تو بیت کی کوئی قید ہے اور نہ موضوعات کی ۔ چنانچہ اردو میں غزل اور مثنوی کی ہیت میں نظمیں اور آزاد معرا نظمیں بھی لکھی گئی ہیں ۔ اس طرح کوئی بھی موضوع نظم کا موضوع ہو سکتا ہے۔ہیت کے اعتبار سے نظم کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں۔

پابند نظم:

ایسی نظم جس میں بحر کے استعمال اور قافیوں کی ترتیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو، یا بند نظم کہلاتی ہے ۔ نئے انداز کی ایسی نظمیں بھی ہیں جن کے بندوں کی ساخت مروجہ ہیتوں سے مختلف ہو یا جن کے مصرعوں میں قافیوں کی ترتیب مروجہ اصولوں کے مطابق نہ ہو، لیکن ان کے تمام مصر عے برابر کے ہوں اور ان میں قافیے کا کوئی نہ کوئی التزام ضرور پایا جاۓ، پابند نظمیں کہلاتی ہیں۔

نظم معرا:

نظم معراایسی نظم جس کے تمام مصرعے برابر کے ہوں مگر ان میں قافیے کی پابندی نہ ہو نظم معرا کہلاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے نظم عاری بھی کہا ہے۔

آزاد نظم:

ایسی نظم جس میں نہ تو قافیے کی پابندی کی گئی ہو اور نہ تمام مصرعوں کے ارکان برابر ہوں یعنی جس کے مصرعے چھوٹے بڑے ہوں ،آزاد نظم کہلاتی ہے۔

نثری نظم:

نثری نظم چھوٹی بڑی نثری سطروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس میں ردیف ، قافیے اور وزن کی پا بندی نہیں ہوتی ۔ آج کل نثری نظم کا رواج دنیا کی تمام زبانوں میں عام ہے۔

تعارف شاعر:

الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوۓ ۔ ان کی ابتدائی تعلیم وطن میں اور پڑھ تعلیم دیلی میں ہوئی۔ وہ اردو کے ادبی نظریہ ساز ناقد ،سوانح نگار اور صاحب طرز انشا پرداز میں۔ شاعر کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کوئی راہوں پر ڈالا۔ غزل اور قصیدے کی خامیوں کو واضح کیا۔ ان کی غزلیں اور فلمیں لطف واثر کے اعتبار سے اعلی درجے کی ہیں۔

ان کے کلام میں سادگی ، دردمندی اور جذبات کی پاکیزگی پائی جاتی ہے ۔ ان کی چار اہم کتابیں حیات سعدی ، مقد مہ شعر و شاعری’، ‘ یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات جاوید ہیں۔ مولا نا حالی شعر وادب کو محض مسرت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے اور دنیا میں اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔

وہ شاعری کے لیے مطالعہ کائنات اور مناسب الفاظ کی جستجو کو ضروری سمجھتے تھے۔ حالی کو غالب ، شیفتہ اور سرسید کی صحبت حاصل تھی حالی نے ایک طویل نظم مدو جزر اسلام مسدس کی شکل میں لکھی جس کے بارے میں سرسید نے کہا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا ہے تو میں کہوں گا کہ حالی سےجس سے ان کے تنقیدی شعور کو جلا ملی مسدس لکھوا کر لایا ہوں ۔‘‘

نظم تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ کی تشریح:-

جنھوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت
نہ جانی مسلط ہوئی ان پر ظلمت
ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت
گھرانوں پر چھائی امیروں کے نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل

یہ اشعار الطاف حسین حالی کی نظم “تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ” سے لیے گئے ہیں۔جس میں انھوں ںے تعلیم کی اہمیت کو باور کروانے کے کوشش کی ہے۔وہ تعلیم کو قوموں کی ترقی کے لیے ایک اہم ہتھیار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن قوموں نے تعلیم کی اہمیت کو جانا ہے ان پر کبھی ظلمت کے اندھیرے نہیں چھائے ہیں۔بڑے بڑے امیر اور سلاطینوں کے حکومت چلی جاتی ہےاور ان امیر کبیر گھرانوں پر مفلسی اور بد حالی چھا جاتی ہے۔بڑے بڑے خاندانی لوگ قابل عزت نہیں رہتے ہیں۔ان کے شرافت کے سارے دعوے جھوٹے نککتے ہیں۔

نہ چلتے ہیں واں کام کاریکروں کے
نہ برکت ہے پیشہ میں پیشہ وروں کے
بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے
ہوئے بند دروازے اکثر گھروں کے
کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے
وہ اب ہیں دھرے ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے

شاعر کہتا ہے کہ وہاں پر نہ تو کاریگروں کے کام چلتے ہیں اور نہ ہی پیشہ وروں کے پیشے میں کوئی برکت ہے۔سوداگروں اور تاجروں کے کھیل بھی بگڑنے لگتے ہیں۔ان حالات سے اکثر گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔وہ لوگ جو دن رات خوب دولت کماتے تھے وہ اب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہیں۔

ہنر اور فن واں ہیں سب گھٹتے جاتے
ہنر مند ہیں روز وشب گھٹتے جاتے
ادیبوں کے فضل و ادب گھٹتے جاتے
طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے ،
ہوئے پست سب فلسفی اور مناظر
نہ ناظم ہیں سرسبز اُن کے نہ ناشر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہنر اور فن رکھنے والے لوگوں کی تعداد اب گھٹتی جارہی ہے۔ان لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہوگئی۔جو بڑے بڑے ادیب تھے ان کے علم اور ان کی اہمیت اور فضیلت بھی کم ہوگئی۔ ڈاکٹروں اور طبیبوں کے شفا خانے کم ہو گئے۔ سب فلسفی بھی کم ترین ہو گئے۔نہ تو اداروں کی انتظامیہ کا کوئی اثر و رسوخ باقی رہا اور نہ ناشرین یعنی کتابیں شائع کرنے والوں کا۔

اگر اک پہنے کو ٹوپی بنائیں
تو کپڑا وہ اک اور دنیا سے لائیں
جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں
تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائیں
ہر ایک شے میں غیروں کے محتاج ہیں
وہ میکینکس کی رو میں تاراج ہیں وہ

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت ایسی ہے کہ اگر انہیں پہننے کو ایک ٹوپی بھی منگوانی ہو تو اس کا کپڑا ان کے اپنے پاس میسر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کو وہ کسی اور دنیا سے منگواتے ہیں۔ دوسری جانب اس کپڑے کو سلائی کرنے والی سوئی بھی ان کی اپنی پیداوار نہیں بلکہ اس کو لینے کے لیے بھی وہ مشرق سے مغرب کا سفر طے کرتے ہیں کہ یہ انہی کی دین ہے۔ یہ لوگ ہر کام اور چیز کے لیے دوسروں کے محتاج ہیں اور دوسرے طور پر دیکھا جائے تو درحقیقت یہ لوگ برباد لوگ ہیں۔

جو مغرب سے آئے نہ مال تجارت
تو مر جائیں بھوکے وہاں اہل حرفت
ہو تجار پر بند راہ معیشت
دکانوں میں ڈھونڈیں نہ پائیں بضاعت
پرائے سہارے ہیں بیوپارواں سب
طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر مغربی ممالک سے تجارے کا مال نہ پہنچے تو یہاں کے کاریگر بھی بے کار ہیں اور ان کا فن مر جائے گا اور انہیں بھوک کے لالے پڑ جائیں گے۔اگر ان تاجروں پر معیشت کی راہ بند کر دی جائے تو دوکانوں میں انہیں کوئی سامان میسر نہ ہوگا۔یہاں کے تاجروں اور بیوپاریوں کے سب سہارے پرائے ہیں۔یعنی ان کے پاس اپنا اصل کچھ نہیں ہے۔وہاں کے تاجر اور سیٹھ وغیرہ سب ایک طرح سے بن بلائے ہیں۔

یہ ہیں ترک تعلیم کی سب سزائیں
وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں
مبادا رہ عافیت پھر نہ پائیں
کہ ہیں بے پناہ آنے والی بلائیں
ہوا بڑھتی جاتی سر رہ گذر ہے
چراغوں کو فانوس بن اب خطر ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ سب سزائیں تعلیم ترک کرنے کا نتیجہ ہیں۔کاش یہ لوگ اب اپنی اس غفلت سے باز آ جائیں ہو سکتا ہے بعد میں انھیں بچنے کا کوئی اور راستہ نہ مل سکے۔کیونکہ آگے بہت زیادہ مشکلات آنے والی ہیں۔ہوا کا دباؤ اب بہت بڑھ رہا ہے اور چراغ بھی بغیر فانوس کے جلنے سے قاصر ہے۔ دوسرے معنوں میں شاعر آنے والے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔

لیے فرد بخشی دوراں کھڑا ہے
ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے
جنھیں ماہر اور کرتبی دیکھتا ہے
انہیں بخشتا تیغ و طبل و نوا ہے
یہ ہیں بے ہنر یک قلم چھٹتے جاتے
رسالوں سے نام ان کے ہیں کٹتے جاتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وقت نے انسان کو ایک ایسے دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ جہاں ہر ایک کا جائزہ ایسے لیا جا رہا ہے جیسے کہ کوئی فوجی بھرتی کے وقت پر کھا جاتا ماہر لوگ ان کا جائزہ لیتے ہیں۔انھیں تلواریں اور نقارے دیے جاتے ہیں۔ان میں جو بے ہنر لوگ ہوتے ہیں ان کو چھانٹ کر باہر نکال دیا جاتا ہے اور فوجی دستوں سے ان کے نام کاٹ دیے جاتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

تعلیم کی قدرو قیمت کیا ہے؟

تعلیم کسی بھی فرد، قوم ،جماعت اور ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔دنیا کی وہی قومیں اور ممالک خوشحال ہوتے ہیں جہاں تعلیم کا چلن عام ہوتا ہے۔

حکومت اور قوموں پر زوال کیسے آتا ہے؟

تعلیم کی بے توجہی کی وجہ سے قوموں پر زوال آتا ہے۔

شرافت اور عزت کا معیار کیا ہے؟

شرافت اور عزت کا معیار بہترین تعلیم ہے۔

ترک تعلیم کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

ترک تعلیم کی وجہ سے قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی ترقی کا معیار پست ہو جاتا ہے۔

کسی ملک اور وہاں کے عوام کی ترقی کن چیزوں سے ہوسکتی ہے؟

کسی ملک و قوم اور وہاں کے عوام کی ترقی اور معیار زندگی کی بلندی محض تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

عملی کام:-

نظم کے پہلے بند کا مطلب لکھیے۔

نظم کے پہلے بںد میں شاعر ںے تعلیم کی اہمیت کو باور کروانے کے کوشش کی ہے۔وہ تعلیم کو قوموں کی ترقی کے لیے ایک اہم ہتھیار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن قوموں نے تعلیم کی اہمیت کو جانا ہے ان پر کبھی ظلمت کے اندھیرے نہیں چھائے ہیں۔بڑے بڑے امیر اور سلاطینوں کے حکومت چلی جاتی ہےاور ان امیر کبیر گھرانوں پر مفلسی اور بد حالی چھا جاتی ہے۔بڑے بڑے خاندانی لوگ قابل عزت نہیں رہتے ہیں۔ان کے شرافت کے سارے دعوے جھوٹے نککتے ہیں۔

درج ذیل الفاظ میں سے واحد کی جمع اور جمع کی واحد بنا کر لکھیے :

واحد جمع
ملک ممالک
سوداگر سوداگروں
طبیب اطباء
منظر مناظر
تاجر تجار
رسالہ رسالوں
فوج افواج
پیشہ ور پیشہ وروں
امیر امیروں
سلطان سلاطین

تعلیم کے فوائد پر ایک مضمون لکھیے۔

آج ہر شخص جانتا ہے کہ تعلیم بہت ضروری چیز ہے ، کیونکہ تعلیم ہی کی وجہ سے ہمارے اندر ادب وشائستگی آتی ہے ، ہمیں رہنے سہنے کا ڈھنگ ، بات چیت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے ، اچھے برے کی شناخت اور تمیز ہوتی ہے ،تعلیم ہی کی بدولت ہمارے اندر زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے ، تعلیم کے بغیرآدمی بسااوقات بے کار وبے بس ہوجاتا ہے، کبھی کبھی تو اسے اپنا پیٹ پالنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔

ان پڑھ اور جاہل کی مثال اس دور میں ایک اندھے اور نا بینا سے کچھ کم نہیں،ایک اندھا آدمی ہر کام میں دوسرے کا محتاج ہوتاہے ، سہارے کے بغیر اس کی زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی ، اسی طرح جاہل آدمی کو بھی ہر جگہ سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، زندگی کے ہر شعبہ میں وہ دوسرے کا محتاج ہوتاہے، سفر اور انجانی جگہوں میں تو خاص طور پر دوسرے کی رہنمائی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، اسٹیشن پر فلاں گاڑی کتنے بجے آتی ہے؟ فلاں گاڑی کون سے پلیٹ فارم پر آئے گی؟یہ بس کہاں جارہی ہے؟یہ کون سا محلہ ہے؟یہ سب تو ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات خود ہی وہاں موجود ہوتے ہیں۔

اسٹیشنوں پر آپ نے خود ہی دیکھا ہوگا جگہ جگہ اسکرین لگی ہوتی ہے جس سے یہ پتا چلتا رہتا ہے کہ کون گاڑی کب آرہی ہے ، کس پلیٹ فارم پر آرہی ہے، کون گاڑی ٹائم سے ہے کون لیٹ ہے ، اسی طرح بس وغیرہ پر تختیاں لگی رہتی ہیں جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بس دہلی جارہی ہے ، یہ بس آگرہ جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسے تو ایک پڑھا لکھا آدمی ہی سمجھے گا ایک جاہل بے چارہ کیا سمجھے گا، اسے تو دوسرے سے معلوم کرنے کے بعد ہی پتا چلے گا۔

غرض کہ ایک جاہل آدمی زندگی کے ہر میدان میں سہارے کا محتاج ہوتاہے ،اسے ہر کام میں دوسروں سے مدد لینی ہی پڑتی ہے ، اسے اپنے کسی کام پر اطمئنان نہیں ہوتا، لیکن ایک پڑھا لکھا آدمی بغیر دوسرے کی مدد کے اپنا کام کاج آسانی کے ساتھ خود بھی کرسکتاہے۔اسی لیے تعلیم ہر انسان چاہے وہ آمیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا۔

اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور قتدار کا خیال رکھ سکے۔

تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گےا ہے تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ایٹمی ترقی کا دور ہے سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ ،وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہےجن کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نا ممکن ہے۔