Muflisi Sab Bahar Khoti Hai in Urdu | مفلسی سب بہار کھوتی ہے تشریح

0

کتاب”نوائے اردو”برائے نویں جماعت
سبق نمبر10:غزل
شاعر کا نام: ولی دکنی

تعارف صنف:

غزل عربی کا لفظ ہے۔ اس کے اصل معنی میں محبوب سے باتیں کرنا ،عورتوں سے باتیں کرنا۔ وہ شاعری جسے غزل کہتے ہیں اس میں بنیادی طور پر عشقیہ باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ہیں اور آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزل میں تقریباً ہر طرح کی باتیں کی جاسکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ غزل اردو کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔

غزل کا ہر شعر عام طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں۔ یوں تو غزل میں عموما پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں ، لیکن بعض غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک ہی بحر ، قافیے اور ردیف میں شاعر ایک سے زیادہ غزلیں کہ دیتا ہے۔اس کو دوغزلۂ سہہ غزل، چہار غزالہ کہا جا تا ہے۔

کسی غزل کے اگر تمام شعر موضوع کے لحاظ سے آپس میں یکساں ہوں تو اسے غزل مسلسل کہتے ہیں اور اگر شاعر غزل کے اندر کسی ایک مضمون یا تجربے کو ایک سے زیادہ اشعار میں بیان کرے تو اسے قطعہ اور ایسے اشعار کوقطعہ بند کہتے ہیں ۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلا تا ہے۔ مطلع کے بعد والا شعر زیب مطلع یا حسن مطلع کہلا تا ہے۔

غزل میں ایک سے زیادہ مطلع بھی ہو سکتے ہیں۔ انھیں مطلع ثانی ( دوسرا مطلع ثالث ( تیسرا ) کہا جا تا ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنانام استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاہ بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور صرف قافیے ہوں اس کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔

تعارف شاعر:

ولی کے نام ، تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش، سب کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن بیشتر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا نام ولی محمداور تخلص و لی تھا۔ وہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ بعد میں احمد آباد کرانھوں نے شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں تعلیم مکمل کی اور یہیں شاہ نورالدین سہروردی کے مرید ہوئے۔

ولی نے فارسی الفاظ اور انداز بیان کی آمیزش سے ایک نیارنگ پیدا کیا۔ ولی کے کلام کا یہ نیا رنگ نہ صرف ان کی مقبولیت کا باعث بنا بلکہ اس زمانے کے دہلی کے شعرا نے بھی اس کا اثر قبول کیا اور وہ بھی اسی انداز میں شاعری کرنے لگے۔ ولی کے اثر سے دہلی میں اردو شاعری کا چلن عام ہوا جوآ گے چل کر روز به روز ترقی کرتا گیا۔ ولی کا انتقال احمد آبادمیں ہوا۔

ولی اپنے زمانے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کی تقریباً تمام اصناف میں صلاحیت کے جوہر دکھاۓ ہیں۔ ولی سے پہلے قصیدہ اور مثنوی کا رواج زیادہ تھا۔ ولی نے غزل کو اولیت دے کر اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان کی غزلوں میں خیال کی ندرت اور بیان کی لطافت پائی جاتی ہے۔

انھوں نے اپنی غزلوں میں حسن وعشق کے مضامین کے ساتھ ساتھ تصوف و معرفت کو بھی جگہ دی۔ عشقیہ واردات و کیفیات کے بیان میں سرورومستی کا انداز پا یا جا تا ہے ۔ ولی محبوب کے حسن کے دائمی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے خارجی اوصاف کا بیان بڑے پرلطف اور دل کش انداز میں کرتے ہیں۔ ولی کی زبان میں ایک خاص مٹھاس ہے، جو ہندی ، دیسی اور فارسی کے الفاظ کو توازن کے ساتھ استعمال کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔

غزل کی تشریح:

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے

یہ شعر ولی دکنی کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مفلسی اور ناداری انسانی زندگی کی خوبصورتی اور خوشیوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہیں۔ مفلس اور غریب انسان کی زندگی سے اس غربت کی وجہ سے ہر طرح کی خوشی و بہار ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہی ناداری ایک انسان کا دوسرے انسان پر اعتبار بھی ختم کر دیتی ہے۔

کیوں کے حاصل ہو مج کوں جمعیت
زلف تیری قرار کھوتی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری زندگی میں مجھے سکون کیسے اور بھلا کیوں حاصل ہو گا کیونکہ میرا سکون تیری اور تیری زلفوں کی دیوانگی میں پڑ کر کھو چکا ہے۔ تمھاری یہ زلفیں ہر وقت میرے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہیں اور ان کی وجہ سے میں اپنا چین کھو چکا ہوں۔

ہر سحر شوخ کی نگہ کی شراب
مجھ انکھاں کا خمار کھوتی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری ہر صبح میرے محبوب کے دیدار سے ہوتی ہے اور وہ دیدار اس کی شوخ نگاہوں کا دیدار ہے جس میں شراب جیسی مستی اور خمار ہے۔ان خمار بھری آنکھوں کے دیدار سے میں اپنی پیاس مٹا لیتا ہوں۔دوسرے معنوں میں محبوب کی یہ نگاہیں مجھ پر خمار کی کیفیت طاری کر دیتی ہیں۔

کیوں کہ ملنا صنم کا ترک کروں
دلبری اختیار کھوتی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب سے میل جول کو کیوں اور کیسے ختم کر دوں کہ محبوب سے یہ محبت اور اس کا دلربا انداز مجھ پر میرا قابو نہیں رہنے دیتا اور میں اس کی جانب کھچا چلا جاتا ہوں۔

اے ولیؔ آب اس پری رو کی
مجھ سنے کا غبار کھوتی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے پری چہرے والے یعنی خوبصورت محبوب کی چمک میرے سینے میں ناخوشی اور رنجیدگی کے احساسات کو مٹاتا ہے۔ یعنی محبوب کے خوبصورت چہرے کے دیدار کے بہت دل کا ہر غم مٹ جاتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

مرد کا اعتبار کھونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

مرد کا اعتبار کھونے سے شاعر کی مراد ہے کہ مفلسی ایک ایسی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ بھی نہیں کرتے ہیں۔

کون سی چیز شاعر کے سینے کا غبار کھورہی ہے؟

شاعر کے محبوب کے خوبصورت چہرے کی چمک دمک اس کے سینے کی رنجیدگی اور غم کو مٹانے کا سبب ہے۔

شاعرصنم سے ملنا کیوں نہیں ترک کر پا تا ہے؟

شاعر محبوب سے حد سے بڑھی ہوئی محبت اور دل پر اختیار نہ ہونے کی وجہ سے محبوب سے ملنا ترک نہیں کر پا تا ہے۔

عملی کام:-

نیچے دیے گئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:

مفلسی مفلسی کی وجہ انسان ایک دوسرے کا اعتبار کھو دیتے ہیں۔
نہار لیل و نہار سب قدرت کے کرشمے ہیں۔
اختیار ناممکن کو ممکن کرنا بس اللہ کی ذات کے اختیار میں ہے۔
بحر بحر و بر سب کا خالق اللّٰہ تعالیٰ ہے۔
اعتبار محبت کے رشتے میں اعتبار کا ہونا ضروری ہے۔
بہار بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہر جانب خوبصورت پھول کھل اٹھے۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو لکھنے میں ایک جیسے نہیں ہوتے اور ان کو پڑھنے میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ جیسے نذر۔ نظر ، نذیر نظیر ، اسرار۔ إصرار، ألم علم عقل ۔اقل ۔ آپ اپنے استاد سے ان الفاظ کا فرق معلوم کر کے لکھیے ۔

نذر لفظ نذرانہ سے ہے جبکہ نظر کا معنی دیکھنا ہے۔
نذیر کا مطلب ڈرانے والا ہے جبکہ اردو میں یہ لفظ بطور نام بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ نظیر سے مراد مثال کے ہیں۔
اسرار کے معنی پوشیدہ یا چھپی بات کے ہیں جبکہ اصرار سے مراد کسی بات پر زور ڈالنا یا زد کرنا وغیرہ کے ہیں۔
الم کے معنی پرچم کے ہیں جبکہ علم سے مراد سیکھنا جاننا ہے۔
عقل سے مراد سمجھ بوجھ ہے جبکہ اقل کے معنی تھوڑا یا کم کے ہیں۔

غزل کے دوسرے شعر میں ایک لفظ حاصل آیا ہے اگر ہم اس کے شروع میں ل+ا معنی ہی بدل جائیں گے اور یہ لفظ بن جائے گا لا حاصل، یعنی جس سے کچھ حاصل نہ ہو۔ آپ اسی طر ح ( لا ) لگا کر پانچ الفاظ لکھیے۔

لا علم ، لا تعلق ، لا تعداد ، لایعنی ،لا زوال ،لامکاں ، لا تعلقی وغیرہ۔