Class 9 Urdu Chapter 16 Question Answer | تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر16:کہانی(روسی سے ترجمہ)
  • مصنف کا نام: پروفیسر محمد مجیب
  • سبق کا نام:تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے

تعارف مصنف:

پروفیسر محمد مجیب لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے 1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی ، لندن گئے وہاں جدید تاریخ میں بی ۔ اے (آنرز) کیا اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ برلن جاکر انھوں نے جرمن اور روی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں تدریسی اور انتظامی امور سے وابستہ ہوگئے۔

1948 میں جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے ۔پروفیسر محمد مجیب کا شمار اردو کے ممتاز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ مورخ ، ڈراما نگار اور مترجم بھی تھے۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے عنوانات کیتی ، انجام ، خانہ جنگی ، حبہ خاتون، ہیروئن کی تلاش ، دوسری شام ، ‘ آزمائش اور “آؤ ڈراما کریں” ہیں۔پروفیسر محمد مجیب اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام مسلسل کرتے رہے۔ انھوں نے دوسو سے بھی زیادہ مضامین لکھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی تینتالیس (43 ) کتابیں شائع ہوئیں۔ پیش نظر سبق روی کہانی سے محمد مجیب کا ترجمہ ہے۔

خلاصہ سبق:-

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جا تا ہے سبق ایک روسی کہانی سے ماخوذ ہے جس میں مصنف نے سبق آموز طریقے سے بغیر کو شش و محنت کچھ پا لینے اور غرور کا انجام دکھایا ہے۔کہانی کا آغاز ایک عقاب سے ہوتا ہے جو بلندیوں میں اڑتا ہوا جا کر ایک ساگوان کے درخت پر بیٹھ جاتا ہے۔

عقاب نے اپنے سامنے نظر آنے والے منظر کو دیکھ کر دنیا کی خوبصورتی کو سوچا۔اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح اس کے سامنے رکھی ہوئی ہے۔عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے کہا کہ میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ توں نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی ایسی نہیں ہے کہ جہاں تک میری رسائی نہ ہوسکے۔

میں کسی بھی ایسے مقام پر بیٹھ کر نظاروں کا لطف اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی رسائی ممکن نہیں ہو سکتی۔عقاب انہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک چیونٹی نے اسے مخاطب کیا اور بولی کہ تم اپنے مجھ میاں مٹھو بن رہے ہو میں کیا تم سے کم ہوں۔عقاب نے اس سے پوچھا کہ تم اتنی بلند چوٹی پر کیسے آئی کیا رینگ کر یہاں رک پہنچی ہو؟ اس پر وہ چیو نٹی کہنے لگی کہ میں تمھاری دم کے ساتھ چپک کر پہاڑ کی بلندی تک آ پہنچی ہوں۔تم نے خود مجھے یہاں پہنچایا ہے لیکن اب میں تمھاری مدد کے بغیر یہاں ٹھہر سکتی ہوں۔

اتنے میں ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور چیونٹی اڑتی ہوئی زمین پر جا پہنچی۔یوں ۔صنف نے کہانی کے ذریعے یہ سبق دیا کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسی خصلت رکھتے ہیں جو خود کوشش اور محنت کو نہیں اپناتے بلکہ کسی کے بل بوتے پر اعلیٰ مقام پا لیتے ہیں۔ مگر اس مقام پر بھی ان کا غرور و تکبر ان کو منھ کے بل گراتا ہے اور کبھی بھی زندگی کی آزمائش میں سرخ رو نہیں ہو پاتے۔

سوچیے اور بتایئے:

ساگوان کے درخت پر بیٹھ کر عقاب نے کیا سوچا؟

ساگوان کے درخت پر بیٹھ کر عقاب نے اپنے سامنے نظر آنے والے منظر کو دیکھ کر دنیا کی خوبصورتی کو سوچا۔اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح اس کے سامنے رکھی ہوئی ہے۔

عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے کیا کہا؟

عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے کہا کہ میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ توں نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی ایسی نہیں ہے کہ جہاں تک میری رسائی نہ ہوسکے۔میں کسی بھی ایسے مقام پر بیٹھ کر نظاروں کا لطف اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی رسائی ممکن نہیں ہو سکتی۔

مکڑی پہاڑ کی بلندی تک کس طرح پہنچی؟

مکڑی عقاب کی دم سے چپک کر اس کی پرواز کے ذریعے پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی۔

مکڑی کا انجام کیا ہوا؟

ایک تیز ہوا کا جھونکا مکڑی کو پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر لے آیا۔یوں اس کا غرور خاک میں مل گیا۔

اس کہانی سے آپ کو کیا سبق ملتا ہے؟

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے اور کسی کی قابلیت کا سہارا لیتے ہوئے آپ وقتی کامیابی تو حاصل کرسکتے ہیں لیکن اصل آزمائش کے میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھریے:

سر بہ فلک ، آسمان ، جھونکا ، ساگوان ، غرور۔

  • عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔
  • صدیوں پرانے ساگوان کے ایک درخت پر بیٹھ گیا۔
  • تو اسسر بہ فلکچوٹی پرکس طرح پہنچی ۔
  • اتنے میں ایک طرف سے تیز و تند ہوا کا جھونکا آیا۔
  • غروران کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:

‌خوب صورت بد صورت
بلندی پستی
نزدیک دور
طاقت کمزوری
پرانا نیا

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کے معنی لکھیے:

اپنے منہ میاں مٹھو بننا اپنی تعریف آپ کرنا۔
عقل پر پردہ ڈالنا کوئی بات عقل یا سمجھ میں نہ سمانا/کوئی بات عقل سے بالاتر ہو جانا۔
تاب نہ لانا برداشت نہ کر سکنا۔
سینہ پھلا نا کسی بات میں فخر و غرور کے انداز میں اپنی اہمیت ثابت کرنا۔

عملی کام:-

اس سبق کے آخری پیراگراف کا مفہوم اپنے لفظوں میں لکھیے۔

اس پیراگراف میں مصنف نے کہانی کا نچوڑ بیان کیا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسی خصلت رکھتے ہیں جو خود کوشش اور محنت کو نہیں اپناتے بلکہ کسی کے بل بوتے پر اعلیٰ مقام پا لیتے ہیں۔ مگر اس مقام پر بھی ان کا غرور و تکبر ان کو منھ کے بل گراتا ہے اور کبھی بھی زندگی کی آزمائش میں سرخ رو نہیں ہو پاتے۔