ریختی کی تعریف اور روایت

0

ریختی کی صنف اردو سے مخصوص ہے۔ عربی یا فارسی شاعری میں اس کا وجود نہیں ہے۔ اس میں شاعر عورتوں کے لب ولیے، ان کی زبان، روزمر و اور محاوروں میں ، عورتوں کی طرف سے ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ریختی کے لیے ہیئت کی کوئی پابندی نہیں لکھنو کے مخصوص معاشرے اور تہذیب میں اس صنف کو پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول ملا۔

اس کی عمدہ مثال رنکین کا کلام ہے۔ انھوں نے اپنے دیوان ریختی میں فردیات، رباعیات، قطعات ، خمسہ مثنوی اور غزل کی ہیئت میں ریختی کے نمونے پیش کیے ہیں۔اظہار عشق اور معاملات عشق سے قطع نظر، عورتوں کے عقائد ، رسم ورواج ، پیر پرستی ، نذرو نیاز ، زچگی ،عقیقہ، شادی بیاہ کی رسوم، بناؤ سنگھار، کپڑے، زیور طعن وتشنیع ، ناز وادا، رشک ، حسد، غصہ، رقابت،عشق، بوالہوسی اور معاملات خانه داری ؛ سب ریختی کے موضوعات بن سکتے ہیں۔

ان تمام معاملات کو بیان کرتے وقت اگر عورتوں کے لب و لہجے اور محاوروں کو برتنے کا اہتمام نہیں کیا گیا تو یہ شاعری ریختی نہیں کہلائے گی ۔ریختی میں جنسی جذبات کے برملا اور بے باکانہ اظہار کی وجہ سے یہ ایک بدنام اور غیر مہذب صنف سمجھی گئی۔ اس لیے سنجیدہ حلقوں میں اس کی پذیرائی نہیں ہوسکی۔ بدلتے ہوۓ معیار و مذاق کی بدولت یہ چلن سے باہر بھی ہوگئی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی بدولت عورتوں سے مخصوص بہت سارے الفاظ و محاورات اور گھر یلو معاملات کی تفصیلات، تاریخ ادب کا حصہ بن گئی ہیں۔شمالی ہندوستان میں ریختی کی ایجاد کا سہرا سعادت یار خاں زمین کے سر ہے۔ رنگین نے’’ دیوان انگیختہ‘‘ کے نام سے اردو کا پہلا دیوان ریختی ترتیب دیا تھا۔

ان سے بہت پہلے دکن کے شاعر ہاشمی بیجاپوری کی شاعری میں بھی وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جن سے ریختی کی شاعری عبارت ہے۔ رنگین کے علاوہ ریختی کوفروغ دینے میں انشاء اللہ خاں انشا کی حیثیت مسلم ہے۔ ان کے علاوہ جان صاحب، امجد علی نسبت ، مرزا علی بیگ نازنین کے نام بھی اہم ہیں ۔ ریختی کے مخصوص مزاج سے واقف ہونے کے لیے انشا کی ایک ریختی کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں :

صدقے اپنے نہ ہو، اس کے کوئی قربان ہو نوج
ایسے لوگوں کا، کسی شخص کو ارمان ہو نوج
یوں اشارے سے کہا، مجھ سے خفا سے کیوں ہو
جان اور بوجھ کے ایسی کوئی انجان ہو نوج
پڑھوں لاحول نہ کیوں، ہے تجھے شیطان لگا
لاگو ایسے کہ کوئی اے موئی شیطان ہو نوج
باجی کہتی ہیں کہ اک مردوے پر غش ہے تو
مفت ایسا بھی کسی شخص پہ بہتان ہو نوج
مل کے انشا سے پشیمان ہوۓ ہیں تو بہت
دل لگا کر کوئی ایسے سے پشیمان ہو نوج
ادبیات (ص406)انشا