Roshan Jamal e Yaar Tashreeh | روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

0
  • کتاب”نوائے اردو”نویں جماعت
  • سبق نمبر13:غزل
  • شاعر کا نام: حسرت موہانی

تعارف شاعر:

سید فضل الحسن حسرت ،قصبہ موہان ضلع اناؤ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔انھوں نے عربی ،فارسی گھر پر پڑھی اور انگریزی تعلیم اسکول میں حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ ’اردوے معلی ‘‘ جاری کیا جو عرصہ دراز تک اردو زبان وادب کی خدمت کرتارہا۔

حسرت مذہبی انسان تھے۔ ان کا ذہن ہرقسم کے تعصبات سے پاک تھا۔ ان میں کمال کی اخلاقی جرات تھی۔ جو بات دل میں ہوتی وہی زبان پر لاتے۔ منافقت اور تصنع سے انھیں دور کا واسطہ نہ تھا۔ خودداری ، بے باکی ،اصول پسندی ،سادگی اور خلوص ان کے نمایاں اوصاف تھے۔

حسرت کو طالب علمی کے زمانے سے شعر و شاعری کا شوق تھا لیکن وہ تحریک آزادی میں بھی عملی طور پر شریک رہے۔ قوم کے بڑے رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے رسالے اردوئے معلی کی ضمانت ضبط کر لی گئی۔ انھوں نے کئی بارقید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آزادی کامل کے سلسلے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔

مکمل آزادی کا نعرہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بلند کیا تھا۔اردوغزل کو از سر نو مقبول بنانے میں حسرت موہانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے غزل کو تہذیب عاشقی کی شائستہ زبان سے آشنا کیا اور دردواثر کے ساتھ شیر ینی ، دل کشی اور طرز ادا میں شگفتگی ولطافت پیدا کی۔

حسرت موہانی نے اپنی غزل میں عشقیہ مضامین کے علاوہ قومی سیاست اور قومی یک جہتی پر مبنی مضامین بھی داخل کیے۔ انھوں نے پرانے شعرا کا ایک بہت عمدہ انتخاب انتخاب سخن کے نام سے چودہ جلدوں میں شائع کیا اور اس انتخاب کے ذریعے کئی ایسے شعرا کا کلام محفوظ ہو گیا اور دور دور تک پہنچ جو پردۂ گم نامی میں تھے۔ حسرت موہانی نے نواب اصغر علی خان نسیم کے شاگرمنشی امیر اللہ تسلیم کی شاگردی اختیار کی۔

غزل کی تشریح:-

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

یہ شعر حسرت موہانی کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے جلوؤں سے تمام محفل روشن ہو چکی ہے۔یہاں محبوب ایک ایسے پھول کی مانند ہے جو اس قدر روشن ہے کہ اس کی روشنی سے تمام باغ دہک اٹھا یعنی روشن ہوگیا۔

حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرا دل جو میں نے محبوب پہ ہارا تھا میرے اس دل نے محبوب کے تمام چال چلن اور طریقے سیکھ لیے ہیں۔اس نے محبوب کےبے پناہ حسن کی وجہ سے اس کا غرور کرنے کا انداز اور حسن کی شوخی کے ساتھ بے چینی کی ادا کو بھی سیکھ لیا ہے۔ یوں عاشق کے دل نے محبوب کے تمام طور طریقوں کو پوری طرح سیکھ لیا ہے۔

دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کی نظر اس قدر پر اثر اور جادو سے پر تاثیر لیے ہوئے ہے کہ اس کی ایک نظر کا اتنا سرور ہوتا ہے کہ اس سے انجمن یعنی محفل میں تمام لوگ اپنے حواسوں سے بے قابو ہو جاتے ہیں اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

نشو و نمائے سبزہ و گل سے بہار میں
شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جس طرح سے سبزے کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ بڑھتا ہے اور اس سبزے سے ہر جانب بہار کا سا سماں دکھائی دیتا ہے۔اس خوشنما سبزے سے تمام چمن شادابیوں سے گھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ایسے ہی میرا دل بھی سر سبز و شاداب ہو چکا ہے۔

اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ظلم کرنے والوں کا کام ظلم کے پہاڑ ڈھانا ہے۔یہ ایک طرح سے اچھا ہے کہ ظلم کرنے والے ظلم کرتے جائیں۔کوئی کہ ان کے اس بے جا ظلم سے ہی ایک روز پورے وطن میں شور اور ہنگامہ جنم لے گا۔وطن سے محبت کرنے والے اس ظلم کے خلاف ایک آواز بن کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔

سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مغربی قوم کو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے مشرقی قوم اور تہذیب پوری طرح زوال پزیر ہو کر اپنے انجام کوپانے والی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کی قوم چیل اور کوؤں کی صورت میں مشرق کی قوم اور تہذیب کو نوچنے کے لیے یہاں جمع ہو چکی ہے۔

شیرینئ نسیم ہے سوز و گداز میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام

یہ شعر نہ صرف غزل کے مقطعے کا شعر ہے بلکہ اس میں شاعر نے بہت خوبصورتی سے شاعرانہ تعلی کا استعمال بھی کیا ہے۔ شاعر اس شعر میں نواب اصغر علی خاں نسیم دہلوی جو کہ ان کے استاد تھے ان کے شاعرانہ فن اور میر تقی میر کے کلام کے سوز گداز کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ میرے کلام میں ان بڑے شعراء جیسی خوبیوں کے ساتھ ساتھ شاعر کے سخن کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں اور اسی پر لطف سخن تمام ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

”دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام“ اس مصرعے میں آتش گل سے کیا مراد ہے؟

اس مصرعے میں آتش گل سے مراد روشن چہرہ یعنی شاعر کا محبوب ہے۔

اہل جور سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟

اہل جور سے شاعر کی مراد ظلم و ستم ڈھانے والے لوگ ہیں۔ان سے مراد انگریز جابر حکمران لیے جا سکتے ہیں۔

غزل کے کس شعر میں تعلی کا اظہار کیا گیا ہے؟

غزل کے آخری شعر مقطعے میں شاعرانہ تعلی استعمال کی گئی ہے۔

شاعر کے خیال میں وطن سے محبت کا شور کن وجوہ سے پھیل رہا ہے؟

شاعر کے خیال میں ظلم و ستم کرنے والوں کے بڑھتے ہوئے ظلم سے وطن سے محبت کرنے والوں کا شور بڑھتا جا رہا ہے۔

عملی کام:-

اس غزل کے قافیوں کی نشاندہی کیجیے اور ان سے ملتے جلتے تین اور قافیے لکھیے۔

چمن، چلن، انجمن،وطن،سخن، چلمن وغیرہ۔

اشعار میں مختلف جگہوں پر اضافت کا استعمال ہوا ہے ،ایسے الفاظ تلاش کر کے لکھیے۔

اضافت والے الفاظ درج ذیل ہیں:
جمال یار، آتش گل، غرورِ حسن، چشمِ یار، اہل جور، شورش حب وطن، اہل شرق ، قریب مرگ، لطفِ سخن۔

جن اشعار میں حرف عطف کا استعمال ہوا ہے ان شعروں کی نشاندہی کیجیے۔

شعر نمبر 4،6 اور 7 میں حروف عطف یعنی ” و ” کا استعمال ہوا ہے۔

مقطعے میں جن تین شعرا کےتخلص آۓ ہیں ان کے پورے نام لکھیے۔

مقطعے میں جن شعراء کے تخلص استعمال ہوئے ہیں ان کے مکمل نام یہ ہیں:
نواب اصغر علی خاں نسیم دہلوی ، میرتقی میر اور حسرت موہانی۔