Ek Bacha Aur Jugnu Ki Baatein Tashreeh | NCERT Urdu | نظم ایک بچہ اور جگنو کی باتیں کی تشریح

0
  • کتاب”سب رنگ” برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر04:نظم
  • شاعر کا نام: محمد اسماعیل میرٹھی
  • نظم کا نام:ایک بچہ اور جگنو کی باتیں

تعارف شاعر:

محمد اسماعیل میرٹھی کی پیدائش میرٹھ میں ہوئی۔ انھیں بچپن سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ اپنے شوق اور محنت سے انھوں نے بڑی ترقی کی ۔ کم عمری میں ملازم ہو گئے ۔علم وادب کی دنیا میں نام پیدا کیا۔

اردو اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے انھوں نے بچوں کی نفسیات ، ذوق وشوق ، دل چپی ، پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہوۓ نظمیں لکھیں اور اردو کی درسی کتابیں تیار کیں ۔ یہ کتا ہیں ہر زمانے میں مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ سمعیل میرٹھی نے ان کتابوں میں آسان اور سادہ زبان استعمال کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے نتائج پیدا کرنا اسماعیل میرٹھی کا خاص انداز ہے۔ بلا شبہ وہ آج بھی بچوں کے پسندیدہ اور اہم شاعر ہیں۔

نظم ایک بچہ اور جگنو کی باتیں کی تشریح:

سناؤں تمھیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
چمکنے سے جگنو کے تھا اک سماں
ہوا پر اڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچے کی ان پر نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
چمک دار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں چھٹ پٹ چھپایا اسے
وہ چھم چھم چمکتا ادھر سے ادھر
پھرا، کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غم گین قیدی نے کی التجا
کہ چھوٹے شکاری مجھے کر رہا

یہ اشعار ” اسماعیل میرٹھی” کی نظم ” جگنو اور بچہ کی باتیں” سے لیے گئے ہیں۔ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ آج میں تمھیں برسات کی ایک اندھیری رات کی بات سناتا ہوں کہ فضا میں ایک جگنو چمکتا پھر رہا تھا اور اس کے بھرنے سے فضا میں ایسا منظر دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے اندھیرے میں چنگاریاں چمک رہی ہوں۔ ایک بچے کی جب جگنو پر نظر پڑی تو اس نے دوڑ کر اس جگنو کو پکڑ لیا۔کیوں کی یہ چمک دار کیڑا اس بچے کو اچھا لگا تھا اس لیے اس نے نہ صرف بھاگ کر اسے پکڑ لیا بلکہ اسے اپنی ٹوپی کے نیچے چھپا بھی لیا۔ جگنو کو جب بچے نے قید کر لیا تو وہ گھبرا گیا اور ادھر ادھر گھومنے لگا اور ٹوپی کے نیچے سے باہر نکلنے کا رستہ ڈھونڈنے لگا۔ یوں غمگین قیدی یعنی جگنو نے یہ التجا کی اے چھوٹے شکاری مجھے رہا کر دو۔

جگنو:

خدا کے لیے چھوڑ دے چھوڑ دے
مری قید کے جال توڑ دے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جگنو نے بچے سے یوں التجا کی کہ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو رہائی دے دو۔مجھے جس جال میں قید کیا ہوا ہے اس جال سے رہائی دے دو۔یعنی میری قید کو ختم کر دو۔

بچہ:

کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک

جگنو کی التجا پر بچہ جگنو سے یوں گویا ہوا کہ میں تمھیں اس وقت تک آزاد نہیں کروں گا کہ جب تک میں تمھیں رات ہی کی طرح دن میں بھی چمکتا ہوا نہ دیکھ لوں۔

جگنو:

چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تم
اجالے میں ہوجائے گی وہ تو گم

بچے کی اس فرمائش پر کہ وہ جگنو کو دن میں بھی چمکتا دیکھنا چاہتا ہے جگنو اس بچے سے کہنے لگا کہ تم دن میں میری چمک دیکھنے کے خواہش مند ہو لیکن وہ تو تم نہیں دیکھ پاؤ گے کیونکہ دن کی روشنی میں میری چمک کھو جاتی ہے۔

بچہ:

ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
اجالے میں دن کے کھلے گا یہ حال
کہ اتنے سے کیڑے میں کیا ہے کمال
دھواں ہے نہ شعلہ نہ گرمی نہ آنچ
چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ

جگنو کی یہ بات سن کر کہ وہ دن کی روشنی میں نہیں چمکتا ہے بچہ جگنو سے یہ کہنے لگا کہ اے چھوٹے کیڑے مجھے دھوکا مت دو۔میں یہ مانتا ہوں کہ مجھے چیزوں سے واقفیت کم ہے لیکن میں دن کی روشنی میں خود اس حقیقت کو معلوم کروں گا کہ تم جیسے اتنے چھوٹے سے کیڑے میں کیا کمال پوشیدہ ہے۔ نہ تو تم میں سے دھواں نکلتا ہے نہ ہی کوئی شعلہ اور نہ کوئی گرمی کی آنچ ہے۔ پھر تم کیوں اور کیسے چمک لیتے ہوں اس چیز کی میں دن کے اجالے میں خود جانچ پڑتال کروں گا۔

جگنو:

یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب
کہ ذرے کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے یہ چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹک
نہ الھڑ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال

بچے کی بات سن کر جگنو اس سے کہنے لگا کہ تم یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ میں کیسے چمکتا ہو تو تم یہ جان لو کہ یہ سب قدرت کی کاریگری یعنی کرشمے ہیں۔کہ وہ چاہے تو ایک ذرے کو چمکا کر آفتاب یعنی سورج کی طرح روشن بنا دے۔اسی لیے اس ذات نے مجے بھی یہ چمک عطا کی ہے۔ کہ تم جیسے لوگ مجھے دیکھیں اور دیکھ کر ٹھٹھک کر رک جائیں۔ اس لیے اپنی نادانیوں کی وجہ سے مجھے مت برباد کرو اور دیکھ بھال کر اور سنبھل کر آدمی کی چال چلو یعنی میرے ساتھ اچھا اور انسانیت والا برتاؤ کرتے ہوئے مجھے رہا کر دو۔

سوچیے اور بتایئے:-

جگنو کے چمکنے سے کیسا سماں تھا؟

جگنو کے چمکنے سے ایسا سماں تھا کہ جیسے آسمان پر چنگاریاں اڑ رہی ہوں۔

جگنو کو دیکھ کر بچے نے کیا کیا؟

جگنو کو دیکھ کر بچے نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور ٹوپی تلے چھپا لیا۔

جگنو نے بچے سے کیا فریاد کی ؟

جگنو نے بچے سے فریاد کی کہ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو اور اپنی قید کے جال سے آزاد کر دو۔

بچہ جگنو کے بارے میں کیا جا نچ کر نا چا ہتا تھا؟

بچہ جگنو کے بارے میں جانچ کرنا چاہتا تھا کہ یہ کیسے چمکتا ہے کیا روشنی میں اس کی چمک گم ہو جاتی ہے کہ نہیں۔ کہ اس کیڑے میں کوئی دھواں، شعلہ ،گرمی اور آنچ نہیں ہے مگر اس کی چمک کیسے برقرار ہے۔

جگنو نے بچے کو کیا صلاح دی؟

جگنو نے بچے کو صلاح دی کہ وہ سنبھل جائے اور آدمی کی چال چلے کیوں کہ جگنو کو تو اللہ نے قدرتی چمک سے نوازا ہے۔