نظم کی تعریف ، مختلف اقسام ، نظم کی ہیئتیں، آغاز و ارتقاء

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر05:شعری اصناف

نظم کی تعریف

نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم میں شروع سے آخر تک خیال کا ربط اور تسلسل ضروری ہے۔ اس کے لیے نہ تو کسی خاص موضوع کی کوئی قید ہوتی ہے اور نہ ہیئت کی۔نظم زندگی کے کسی بھی واقعے ،مسئلے ، خیال اور جذبے کو بنیاد بنا کر کہی جاسکتی ہے۔

نظم غزل کی ہیئت میں بھی ہوسکتی ہے، مثنوی کی ہیئت میں بھی اور مخمس ،مسدس، ترکیب بند اور ترجیع بند کی ہیت میں بھی نظم کے دائرے میں قصیدہ ، مرثیہ، مثنوی ، شہر آشوب اور دیگر اصناف بھی شامل ہیں لیکن موضوعاتی امتیاز اور جدا گانہ خصوصیات کی وجہ سے بعض اصناف کے نام متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہئیت کی بنیاد پر نظم کی درج ذیل قسمیں ہیں:

نظم کی اقسام

  • پابند نظم
  • طویل نظم
  • آزاد نظم
  • معرانظم
  • نثری نظم

پابند نظم :

پابند نظم میں وزن و بحر کے ساتھ ساتھ قافیوں اور ردیف کی پابندی بھی کی جاتی ہے۔ ابتدائی دور کی بیشترنظمیں پابند نظموں کے دائرے میں آتی ہیں مثلاً نظیر، حالی، اکبر، اقبال ، چکبست اور جوش کی نظمیں، چند پابند نظموں کے عنوانات درج ذیل ہیں:

آدمی نامہ’ برسات کی بہاریں روٹیاں ـ نظیر اکبر آبادی
مٹی کا دیا ، برسات ، مناجات بیوہ الطاف حسین حالی
نئی تہذیب ، مس سیمیں بدن ، جلوۂ در بار دہلی ـ اکبر الہ آبادی
چاند اور تارے ، پرندہ اور جگنو، مکڑا اور مکھی، ماں کا خواب ، بچے کی دعا،پرندے کی فریاد علامہ اقبال
آوازۂ قوم ، رامائن کا ایک سین ،حب وطن چکبست
شکست زنداں کا خواب ، بدلی کا چاند جوش ملیح آبادی

طویل نظم:

روایتی شاعری میں قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی طویل نظم کے ذیل میں آتے ہیں۔ یہ طوالت اشعار کی تعداد پر منحصر ہے۔ قصیدے اور مرثیے میں یہ تعداد محدود ہوسکتی ہے۔ مثنوی کے اشعار واقعے کی طوالت کے پیش نظر قصیدے یا مرثیے سے زیادہ طویل ہو سکتے ہیں۔ طویل نظم کئی صفحات پر محیط ہوتی ہے۔ کسی موضوع یا خیال کی وحدت اسے مختصر نظموں کا مجموعہ ہونے سے بچا لیتی ہے۔

علامہ اقبال نے شکوہ ، جواب شکوہ اور ابلیس کی مجلس شوری وغیرہ طویل نظمیں مسدس کی ہیئت میں لکھی ہیں۔ ان نظموں کی فنی اور فکری اہمیت نے بعد کے نظریہ پسند شاعروں کو متاثر کیا۔ جوش بھی طویل نظم کے شاعر ہیں۔

سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی نے بھی طویل نظمیں کہی ہیں۔ اپنے عہد کے دکھ اور اپنے خوابوں کی دنیا کو سردار نے نئی دنیا کوسلام اور ساحر نے پر چھائیاں جیسی نظموں کا روپ دیا۔ ان نظموں میں اظہار کی ضرورت کے پیش نظر بحر اور وزن کی تبدیلی کو روا رکھا گیا۔

حرمت الاکرام کی کلکتہ : ایک زباب بھی اسی قسم کی ایک طویل نظم ہے۔ ن۔م۔ راشد، اختر الایمان ، وزیر آغا اور جعفر طاہر کی طویل نظموں میں موجودہ عہد کا کرب سمٹ آیا ہے۔ رفیق خاور اور عبدالعزیز خالد بھی طویل نظم کے شاعر ہیں۔ عمیق حنفی کی سند باد، شہہ زاد اور صلصلۃ الجرس طویل نظم کی عمدہ مثالیں ہیں۔ قاضی سلیم کی نظم کچوکے ضمیر کے میں مختلف بحروں کا استعمال کیا گیا ہے۔مثنوی کی روایتی ہیئت میں بھی قاضی سلیم نے باغبان وگل فروش اور زہر خند جیسی طویل نظمیں کہی ہیں۔

معرانظم:

انگریزی میں معرانظم کو بلینک ورس کہتے ہیں۔ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے معرانظم بھی پابند نظموں کے مشابہ ہوتی ہے۔ یہ نظم بھی کسی مخصوص بحر میں کہی جاتی ہے اور نظم کا عنوان بھی ہوتا ہے لیکن معرا نظم میں قافیہ نہیں ہوتا۔ معرا نظم کے اہم شعرا میں تصدق حسین خالد، میراجی ،ن ۔م۔ راشد، فیض احمد فیض ، اختر الایمان، یوسف ظفر ، مجید امجد ، ضیاء جالندھری کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ن ۔م۔ راشد کی نظم زاد سفر دیکھیے:

اجنبی چہروں کے پھیلے ہوئے اس جنگل میں
دوڑتے بھاگتے لمحوں کے در یچے سے کبھی
اتفاقاً تری مانوس شباہت کی جھلک
پردہ چشم تخیل پہ ابھر کر اے دوست
ڈوب جاتی ہے اس پل اس ساعت جیسے
تیز رو ریل کی کھڑکی سے ذرا دوری پر
کسی صحرا کی جھلتی ہوئی ویرانی میں
نا گہا ں منظر نگیں کوئی دم بھر کے لیے
اک مسافر کو نظر آۓ اور اوجھل ہو جائے

آزاد نظم:

آزاد نظم کا پہلا تجربہ فرانس میں درس کے نام سے کیا گیا تھا۔ اس کے تحت غیر مساوی مصرعوں پرمشتمل نظمیں کہی گئیں۔ انگریزی میں اسے فری ورس کا نام دیا گیا اور یہی اصطلاح اردو میں آزاد نظم کے نام سے معروف ہوئی۔

آزاد نظم کا وہ تصور جو انگریزی اور فرانسیسی ادبیات میں ہے اردو میں ان معنوں میں نہیں ، بلکہ اس کی بنیاد بھی اردو شاعری میں مروج روایتی عروض پر رکھی گئی ہے۔ آزاد نظم وہ ہے جس میں مختلف ارکان کی کمی بیشی سے شعر میں ایک خاص قسم کا آہنگ اور ترنم پیدا کیا جا تا ہے۔

اردو میں آزاد نظم کے شعرا میں تصدق حسین خالد، میراجی ، ن۔م۔ راشد ، فیض احمد فیض ، سردار جعفری ، مخدوم محی الدین ، اختر الایمان اور قاضی سلیم کے نام اہم ہیں۔ مخدوم محی الدین کی نظم’ چاند تاروں کا بن اور ن م راشد کی نظم ‘زندگی سے ڈرتے ہو آزادنظم کی عمدہ مثالیں ہیں۔ نظم ‘ چاند تاروں کا بن’ سے بند ملاحظہ ہو:

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگا تا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مردوزن
مستیاں ختم ، مد ہوشیاں ختم تھیں ،ختم تھا بانکپن

نثری نظم:

نثری نظم ، معرا اور آزاد نظموں کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔ اس میں وزن، بحر، ردیف اور قافیے کی پابندی نہیں کی جاتی۔ نثری نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جسے تسلسل کے ساتھ چھوٹی بڑی نثری سطروں میں بیان کر دیا جا تا ہے۔ نثری نظم میں بھی ایک مخصوص قسم کا آہنگ اور شعریت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔

جدید دور میں نثری نظموں کے چلن میں تیزی آئی ہے۔ سجادظہیر کا پچھلا نیلم اور افضال احمد سید کا چھنی ہوئی تاریخ ، نثری نظم کے نمائندہ مجموعے ہیں۔ خورشید الاسلام ، محمد حسن، احمد ہمیش ، کشور ناہید، زبیر رضوی، شہر یار، کمار پاشی ،عتیق اللہ، صادق ، وغیرہ نے منظوم شاعری کے ساتھ نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔مثال ندا فاضلی کی ایک نثری نظم :

بھوک کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا
گھاس کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا
پانی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
جہاں اناج ہے
وہاں بھوک ہے
جہاں مٹی ہے
وہاں گھاس سے
جہاں پانی ہے
وہاں پیاس ہے

نظم کی ہیئتیں

مصرعوں اور اشعار کی تعداد اور ان کی ترتیب کے اعتبار سے نظم کی درج ذیل ہیئتیں اردو میں رائج ہیں:

ترکیب بند،ترجیع بند ،مخمس، مسدس، مستزاد، ترجیع بند، مسبع،مسمط،مثمن، مثلث، مربع،متسع،معشر۔

ترکیب بند:

نظم مختلف بندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور یہ چھے مصرعوں کا بند ہوتا ہے۔ بند کے پہلے چار مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے شعر میں مختلف قافیے لائے جاتے ہیں۔ اس کو میپ کا شعر کہتے ہیں۔ اس طرح اس کا ایک بند مکمل ہوتا ہے۔ باقی کے بند بھی اسی اصول پر ترتیب پاتے ہیں۔ ترکیب بند میں بندوں کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ حالی نے غالب کا مرثیہ ترکیب بند کی ہیئت میں لکھا تھا۔

ترجیع بند :

ترجیع کے معنی لوٹانے کے ہوتے ہیں۔ ترکیب بند میں ٹیپ کا شعر ہر بند میں نیا ہوتا ہے جب کہ ترجیع بند میں ٹیپ کے شعر کی تکرار ہوتی ہے۔ بعض نظموں میں ٹیپ کے شعر کے بجائے ٹیپ کا مصرع ہی بار بار دہرایا گیا ہے۔ مجاز کی نظم آوارہ ترجیع بند کی ایک مثال ہے۔ اس کے ہر بند کے آخر میں اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں کی تکرار ہوئی ہے۔ اسی طرح نظیر اکبر آبادی کی نظم برسات کی بہار میں بھی ترجیع بند میں ہے۔ اس کے ہر بند میں کیا کیا بچی ہے یاروں برسات کی بہار میں مصرع کی تکرار ہے۔

مستزاد:

اس کے لغوی معنی ہیں زیادہ کیا گیا۔ اس میں غزل، رباعی یانظم کے مصرعوں کے آخر میں بعض موزوں الفاظ یا فقروں کا اضافہ کر دیا جا تا ہے۔ اس کے لیے کوئی بحر مخصوص نہیں ہے۔ عام طور سے جس بحر میں اشعار ہیں اس بحر سے متصل فقروں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے اس سے انحراف کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ ایک شعر کی مثال دیکھیے:

جادو ہے نگہ، حچب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
غارت گردیں وہ بت کافر ہے سراپا
اور قد ہے قیامت اللہ کی قدرت
(جرات)

مسمط:

لفظی معنی’’ پروئے ہوئے موتی‘‘ اصطلاحاً (1) مثلث، مربع مخمس یا مسدس بندوں پر مشتمل نظم جس کے پہلے بند کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور دوسرے بند کے آخری مصرعے میں پہلے بند کا قافیہ نظم کیا جاتا ہے یعنی نظم مثلث ( تین مصرعوں کے بند والی ) ہو تو پہلا بند ۱۱۱، دوسراب ب ا اور تیسرا ج ج ب قافیوں میں ہوتا ہے۔ (2) ایک لفظی صفت جس کی رو سے شعر میں (اصل قافیے کے علاوہ) تین مسجع یا ہم وزن فقرے یا قافیے مز یدنظم کیے جاتے ہیں مثلاً:

سنبھل، ایسے غرور میں ہے یہ خلل کہ گرے نہ الجھ کہیں منہ کے ہی بل
بس ، اب اس سے بھی آگے تو بڑھ کے نہ چل، تجھے رفعت عرش علا کی قسم
(انشا)
جب وہ روز جمال دلفروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں
(غالب)

پہلے شعر میں خلل، بل ، چل اور دوسرے شعر میں فروز ، روز ، سوز قافیے مسمط کی صفت پیدا کرتے ہیں۔

مثلث:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی تین کے ہیں۔ اس میں ہر بند تین مصرعوں سے مکمل ہوتا ہے۔ پہلے بند کے تینوں مصرعوں کا قافیہ ایک ہوتا ہے۔ باقی کے بندوں میں پہلے دو مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا اور تیسرے مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی نظم چرواہے کی جنسی اس ہیئت کی مثال ہے۔

مربع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی چار کے ہیں۔ اس ہیئت کے ہر بند میں چار چار مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے بندوں کے ابتدائی تین مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوتھے مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ سودا کے بہت سے مرثیے مربع کی شکل میں ہیں۔

مخمس:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی پانچ ہیں۔ اس کا ہر بند پانچ مصرعوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ پہلے بند کے پانچوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ بعد کے بندوں کے ابتدائی چار مصرعوں کا قافیہ علاحدہ ہوتا ہے اور پانچویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی نظم آدمی نامہ ، ‘برسات کی بہار میں اور اقبال کی نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے مخمس کی مثالیں ہیں۔

مسدس:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی چھے ہیں۔ مسدس سب سے مقبول ہیئت ہے۔ اس میں چھ مصرعوں کا ایک بند ہوتا ہے جس میں پہلے بند کے چھ مصرعے ہم قافیہ ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر پہلے چار مصرعوں کا قافیہ الگ ہوتا ہے اور باقی کے دو مصرعے اپنا الگ قافیہ رکھتے ہیں۔ انیس ودبیر کے مرثیے ، حالی کی مدو جزر اسلام ، اقبال کی ‘شکوہ اور جواب شکوہ اور چکبست کی نظمیں زیادہ تر مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔

مسبع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘سات ہیں۔ اس کا ہر بند سات مصرعوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس میں بھی پہلے بند کے سبھی مصرعے آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ باقی بندوں کے ابتدائی چھے مصرعوں کا قافیہ یکساں اور ساتویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ اردو میں اس ہیئت کا استعمال بہت کم ہوا ہے۔

مثمن:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘ آٹھ ہیں۔ اس میں آٹھ مصرعوں کے بند ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے آٹھوں مصرعے آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔بعد کے تمام بندوں میں ابتدائی سات مصرعوں کا قافیہ یکساں اور آٹھویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات پہلے چھ مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا اور باقی کے دو مصرعوں کا قافیہ یکساں ہوتا ہے۔ مثال دیکھیے:

کل گھر میں وہ بیٹھے تھے سراسیمہ و حیراں
اس حال کے دیکھے سے ہوا حال پریشاں
نے کے سبب چپ نہ سکی پیش پنہاں
سمجھا میں کہ یوں بھی تو ہے مایوی و حرماں
انصاف کو رو، صبر کرے کب تلک انساں
ناچار کہا طعن سے میں نے کہ مری جاں
کس سوچ میں بیٹھے ہو، ذرا سر تو اٹھاؤ
گو دل نہیں ملتا ہے پر آنکھیں تو ملاؤ

متسع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی نو ہیں۔ اس ہیئت کے پہلے بند میں نو مصرعے ہوتے ہیں اور سب ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ بعد کے بندوں میں ابتدائی آٹھ مصرعوں کے قافیے یکساں اور نویں مصرعے کا قافیہ وہی ہوتا ہے جو پہلے بند کا قافیہ ہے۔

معشر:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی دس ہیں۔ یہ نظم کی وہ ہیئت ہے جس کے ہر بند میں دس مصرعے ہوتے ہیں۔اس ہیئت میں بھی پہلے بند کے دسوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے بندوں کے ابتدائی نومصرعوں کا قافیہ یکساں اور دسویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کے قافیے سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ نظیر کی نظم’ عاشق نامہ اس کی ایک مثال ہے۔

اردو نظم کا ارتقا:

اردو شاعری میں نظم کے نمونے ابتدا ہی سے ملتے ہیں۔ قلی قطب شاہ کے کلیات میں مختلف موضوعات پر نظمیں پائی جاتی ہیں۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری نظم نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ نظیر نے مختلف موضوعات پر دلچسپ اور مؤثر نظمیں کہیں۔ آزاد اور حالی کی کوششوں سے نظم کے مغربی تصور کا تعارف ہوا۔ اس تصور کے تحت لکھی جانے والی نظمیں ‘ جدید کہلائیں۔

اس طرح نظم جدید ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور اجتماعی خیالات و احساسات کے اظہار کا مؤثر وسیلہ بنی۔ اس روایت کو آگے بڑھانے میں اسماعیل میرٹھی ،شبلی نعمانی ، اکبر الہ آبادی اور چکبست نے نمایاں کردار ادا کیا لیکن ہیئت کی سطح پر یہ کوئی جدت یا نیا پن نہیں پیدا کر سکے۔

محمد حسین آزاد نے جغرافیہ طبعی کی پہیلی کے عنوان سے بچوں کے لیے اور اسماعیل میرٹھی نے دو بے قافیہ میں بچوں کے لیے لکھی تھیں۔عبدالحلیم شرر نے اردو میں نظم معرا کو رائج کرنے کی کوشش کی۔نظم طباطبائی نے پہلی بار پابند نظموں میں تھوڑی تبدیلی کی۔نظم کے اسلوب اور ہیئت میں بعض تبد یلیاں مغربی نظموں کے تراجم کے زیر اثر رونما ہوئیں۔

شرر نے اپنے رسالے دلگداز اور سر عبدالقادر نے مخزن میں اس پر خاص توجہ دی۔اقبال نے نظم میں ہیئت کی سطح پر نئے نئے تجربات کیے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ ، پیر رومی ومرید ہندی اور مسجد قرطبہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔اقبال کے بعد سیماب، حفیظ ، ساغر ، جمیل مظہری ، افسر، جوش، احسان دانش اور اختر شیرانی وغیرہ نے بھی رومانی ،قومی اور دیگر موضوعات پرنظمیں لکھیں۔

ہیئت اور اسلوب کے سلسلے میں جن شعرا نے تجر بہ کرنے کی کوشش کی ان میں عظمت اللہ خاں کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے ہندی کے سبک الفاظ ، بحر میں اور علامتیں استعمال کر کے اپنی نظموں میں انفرادیت پیدا کی۔ آگے چل کر میرا جی نے آزادنظموں کے سلسلے میں عظمت اللہ خاں کے طرز سے فائدہ اٹھایا۔

ترقی پسند تحریک کے زیراثر بیش تر شعرا زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بر پا کرنا چاہتے تھے۔ بعض شعرا نے اظہار کے نئے سانچے بھی وضع کیے۔میراجی اور ن۔م۔ راشد نے اپنے نظموں کے ذریعہ نئی ہیئت اور نئے اسالیب کو عام کیا۔

آزاد نظم کے دوسرے اہم شعرا میں تصدق حسین خالد ، محمد دین تاثیر مختار صدیقی، ضیا جالندھری، مجید امجد ، اختر الایمان وغیرہ کا خاص مقام ہے۔جو شعرا جدیدیت کے تصور سے متاثر ہوئے ان کا طرز احساس نیا تھا۔ وہ تجربہ پسند تھے۔ انھوں نے مروجہ زبان کے بجائے تخلیقی زبان کو اہمیت دی۔ اظہار میں بلا واسطہ طرز کے مقابلے علامتی طرز کو بنیاد بنایا۔ اسی لیے ان کی نظموں میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ قاضی سلیم ، محمد علوی ، شہر یار، عادل منصوری ، زبیر رضوی اور کمار پاشی اس عہد کے نمائندہ نظم گو شاعر ہیں۔