Qita of Akhtar Ansari Tashreeh | NCERT 9th | اختر انصاری کے قطعات کی تشریح

0
  • کتاب”نوائے اردو”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر22: قطعات
  • شاعر کا نام: اختر انصاری

تعارف شاعر:

اختر انصاری ، بدایوں (اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ اعلی تعلیم کے لیے لندن گئے مگر والد کی علالت کے باعث جلد واپس آ گئے۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوئے اس کے بعد ٹریننگ کالج میں بحیثیت لیکچرران کا تقرر ہوا۔1974ء میں وہ ریٹائر ہوئے اور آخر وقت تک علی گڑھ ہی میں رہے۔

ان کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔ وہ شروع میں شیلے اور کیٹس سے متاثر ہوئے لیکن بعد میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کے اثرات قبول کیے اور شاعری کو سیاسی اور سماجی شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اختر انصاری نے افسانے بھی لکھے اور تنقید بھی لیکن انھیں شہرت قطعات سے ملی۔ ایک ادبی ڈائری، افادی ادب، غزل کی سرگزشت، غزل اور غزل کی تعلیم ان کی نثری تصنیفات ہیں۔ نغمہ روح، روح عصر، دہان زخم، خندۂ سحر ، در دوداغ ، شعلہ بجام، آ بگینے اختر انصاری کے مجموعے ہیں۔

قطعہ نمبر01:امکانات

قدم آہستہ رکھ کہ ممکن ہے
کوئی کونپل زمیں سے پھوٹتی ہو
یا کسی پھول کی کلی سر دست
مزے خواب عدم کے لوٹتی ہو

اس بند میں شاعر اختر انصاری نے زندگی گزارنے کے چند امکانات یا اصولوں کو بیان کیا ہے کہ جن پر کاربند ہو کرزندگی کو بہتر طور پر گزارا جا سکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی میں اپنے قدم ہمیشہ احتیاط اور آہستگی سے بڑھاؤ ممکن ہے کہ کوئی کونپل زمین سے پھوٹنا چاہا رہی ہو لیکن تمھارے قدموں تلے آ کر کچلی جائے۔ یا ہوسکتا ہے ابھی کوئی پھول کی کلی ہمیشہ کی زندگی پانے کے خواب دیکھ رہی ہو۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:کلی کا خوابِ عدم کے مزے لوٹنے سے کیا مراد ہے؟

کلی کا خواب عدم کے مزے لوٹنے سے مراد ہے کہ ممکن ہے کوئی کلی ابھی زندگی کی طرف آنے کے خواب سجائے ہوئے ہو۔

سوال نمبر02:اس قطعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟

اس قطعے میں شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ اپنی زندگی کو اس طور پر گزارا جائے کہ اس سے کسی دوسرے کی زندگی میں کوئی تکلیف یا دشواری کا پہلو نہ آئے۔یعنی زندگی کو اچھے طور پر اور سنبھل کر گزارا جائے۔

قطعہ نمبر02:آرزو

دل کو برباد کیے جاتی ہے
غم بدستوردیے جاتی ہے
مر چکیں ساری امیدیں اختر
آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے

اس بند میں شاعر اختر انصاری نے مشکلات میں بھی پر امید ہونے اور ایک امید ابھارنے کے فلسفے کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی کے حالات ایسا رخ اختیار کرچکے ہیں کہ دل کی حالت برباد ہے اور اس پر بھی زندگی مسلسل غم دیے جا رہی ہے۔ میری ساری امیدیں دم توڑ چکی ہیں مگر ایک امید یا آرزو ایسی چیز ہے جو اب بھی زندہ ہے اور چاہے جیسے بھی حالات ہوں یہ امید دم نہیں توڑتی ہے۔حالات چاہے ناخوشگوار بھی ہوں یہ انسان کے اندر جینے کی امنگ جگائے رکھتی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:’آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے’سے کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں انسان کا دل چاہے ٹوٹ بھی جائے مگر اس کی آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے۔

سوال نمبر02:اس قطعے میں کیا بات کہی گئی ہے؟

اس قطعے میں شاعر نے انسان کی امید اور آرزو کے ہمیشہ زندہ رہنے کی بات بیان کی ہے۔کہ چاہے جیسے بھی حالات ہوں یہ امید دم نہیں توڑتی ہے۔حالات چاہے ناخوشگوار بھی ہوں یہ انسان کے اندر جینے کی امنگ جگائے رکھتی ہے۔

عملی کام:

قطعے کا مفہوم اپنے الفاظ میں لکھیے

اس قطعے میں شاعر نے کہا ہے کہ زندگی کے حالات ایسا رخ اختیار کرچکے ہیں کہ دل کی حالت برباد ہے اور اس پر بھی زندگی مسلسل غم دیے جا رہی ہے۔ میری ساری امیدیں دم توڑ چکی ہیں مگر ایک امید یا آرزو ایسی چیز ہے جو اب بھی زندہ ہے اور چاہے جیسے بھی حالات ہوں یہ امید دم نہیں توڑتی ہے۔حالات چاہے ناخوشگوار بھی ہوں یہ انسان کے اندر جینے کی امنگ جگائے رکھتی ہے۔

قطعہ نمبر03:شب پر بہار

اندھیری رات،خموشی،سرور کا عالم
بھری ہے قہر کی مستی ہوا کے جھونکوں میں
سکوت بن کے فضاؤں پہ چھا گئی ہے گھٹا
برس رہی ہیں خدا جانے کیوں میری آنکھیں

اس قطعے کے شاعر “اختر انصاری” ان اشعار میں فطرت کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اندھیری رات میں خاموشی چھائی ہوئی تھی اور یہ خاموشی نشے کا سا سرور پیدا کر رہی تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں بھی غضب کی مستی بھری ہوئی تھی۔ جبکہ کالی گھٹا ایک خاموش سکوت بن کر فضاؤں پہ طاری ہو چکی تھی۔جبکہ شاعر کہتا ہے کہ نجانے اس اردگرد کی کیفیت سے میری آنکھیں کیوں برس رہی ہیں کہ جیسے یہ گھٹا اور سکوت فضا پر نہیں شاعر کے دل پر چھایا ہوا ہو۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کن کیفیات کو بیان کیا ہے؟

شاعر نے اندھیری رات،گھٹا،سکوت کے چھانے اور ہوا کے جھونکوں جیسی فطری کیفیات کو بیان کیا ہے۔

سوال نمبر02:ہوا کے جھونکوں میں کیسی مستی بھری ہوئی ہے؟

ہوا کے جھونکوں میں غضب کی یعنی قہر بھری مستی بھری ہوئی ہے۔