سفرنامہ کی تعریف اور روایت

0

سفر نامہ ایک بیانیہ نثری صنف ہے۔ بعض سفر نامے منظوم بھی لکھے گئے ہیں۔سفر نامے میں سفر کی روداد بیان کی جاتی ہے۔ سیاح اپنے سفر کے دوران جن مقامات کی سیر کرتا ہے، وہاں جو کچھ دیکھتا ہے، اس کی تفصیل سفر نامے میں پیش کر دیتا ہے۔اس تفصیل میں جغرافیائی محل وقوع ، تاریخی مقامات ، تہذیب وتمدن ، رسم و رواج ،سماجی حالات، سیاسی صورت حال،ادبی و ثقافتی سرگرمیاں وغیرہ جیسے بہت سے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔

سفر نامہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سفر کے احوال و کوائف سچائی اور ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرے۔اس کا انداز بیان دلچسپ ہونا چاہیے تا کہ قاری اسے توجہ سے پڑھے۔ جامعیت اور اختصار بھی سفر نامے کے لیے ضروری ہے۔غیرضروری تفصیل سفر نامے کو بوجھل اور غیر دلچسپ بنا دیتی ہے۔

سفر نامے کی روایت

اردو میں سفر نامے کا آغاز انیسویں صدی کے نصف میں ہوا۔ یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ عجائبات فرنگ اردو کا پہلا سفرنامہ ہے جو 1847 میں لکھا گیا تھا۔ انیسویں صدی کے اہم سفر ناموں میں سرسید احمد خاں کا مسافران لندن محمد حسین آزاد کا سیر ایران شبلی نعمانی کا سفر نامہ روم و مصر و شام اور مولا نا عبدالحئ کا دہلی اور اس کے اطراف قابل ذکر ہیں۔

بیسویں صدی میں جب آمد و رفت کے وسائل میں اضافہ ہوا اور کم سے کم وقت میں مختلف مقامات کا ہوائی سفر آسان ہو گیا تو سفر نامے بھی خوب لکھے جانے لگے۔ اس دوران مذہبی ،ادبی ،سیاسی ، جغرافیائی ، تاریخی اور سوانحی سفر نامے کثرت سے لکھے گئے۔منشی محبوب عالم کا سفر نامہ یورپ ، سرعبدالقادر کا مقام خلافت ، مولوی محمد قصوری کا مشاہدات کابل وداغستان ، قاضی عبدالغفار کا نقش فرنگ ، سید سلیمان ندوی کا سفر نامہ برما ، بیگم حسرت موہانی کا سفر نامہ عراق، احتشام حسین کا ساحل اور سمندر ، خواجہ حسن نظامی کا سفر نامہ شام و مصر و حجاز ، خواجہ احمد عباس کا ”مسافر کی ڈائری ، بیگم اختر ریاض کا سمندر پار سے ، اشفاق احمد کا سفر در سفر اور مستنصر حسین تارڑ کا ” نکلے تیری تلاش میں اور اندلس میں اجنبی وغیرہ اہم سفر نامے ہیں۔

اردو میں حج کے سفرنامے بھی خاصی تعداد میں لکھے گئے ہیں۔اس ذیل میں مولانا عبدالماجد دریابادی کا زادراہ ممتاز مفتی کا ‘لبیک’ نسیم حجازی کا دیار حرم ،ماہر القادری کا ‘ کاروان حجاز ،مرتضی حسین کا ‘ بدر سے کوفہ تک’اور غلام الثقلین کا ‘ارض تمنا’مشہور ہیں۔

بعض سفر نامے مزاحیہ انداز میں بھی لکھے گئے ہیں۔ان میں کرنل محمد خاں کا’بہ سلامت روی’ ،ابن انشا کا ‘چلتے ہو تو چین کو چلیے’ ، ‘آوارہ گرد کی ڈائری’ ، ‘ دنیا گول ہے ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں ، شفیق الرحمن کا ، دجلہ ، عطاء الحق قاسمی کا شوق آوارگی جمیل الدین عالی کا تماشا مرے آگے اور مجتبی حسین کا جاپان چلو، جاپان چلو اہم ہیں۔